دنیا میں مختلف ادوار آئے۔ ایک دور تھا کہ فوجی طاقت و سپہ گری سے علاقے فتح ہوتے تھے۔ انسانی تاریخ کی ابتدا سے لے کر 17 ویں اور 18ویں صدی عیسوی تک ایسا چلتا رہا۔ پھر 19ویں اور 20ویں صدی مسیح میں اہلِ مغرب نے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایشیا میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پھر سیاسی شعور کا دور آیا۔ ٹیکنالوجی شیئر ہوگئی اور انگریزوں کو بھاگنا پڑا۔ آج کا دور شیئرنگ کا دور ہے۔ آج کے دور میں جبر و استبداد سے قوموں کو وقتی طور پر تو دبایا جا سکتا ہے، لیکن مستقل طور پر بالکل نہیں۔ آج کے دور کے اپنے تقاضے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مضبوط مرکزیت سے ریاستوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا، لیکن آج کا فلسفہ و تقاضہ وہ نہیں۔ آج کے دور میں مضبوط اِکائیاں مضبوط وفاق کی علامات ہیں۔ کینیڈا اور امریکہ اسی اصول پر چل رہے ہیں، اور مضبوط بھی ہیں۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ متحدہ عرب امارات کی مثال لیجئے، وہاں دوبئی کے ریوینیو پر دوبئی والوں کا حق ہے۔ شارجہ کی ریونیو پر شارجہ والوں کا اور العین والوں کا اپنے وسائل پر اپنا حق ہے۔ امارات ایک چھوٹا ملک ہے، لیکن وہاں بھی شیئرنگ کا مضبوط سسٹم رائج ہے۔
موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے جنرل باجوہ صاحب نے 18ویں ترمیم کے بارے میں اپنی رائے و نا پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ باجوہ صاحب ایک بہترین جنریل اور محب وطن پاکستانی ہیں، لیکن ان کو ماننا ہوگا کہ اجتماعی دانش فردِ واحد کی دانش سے اچھی رہتی ہے۔ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ اسلام میں باہمی مشاورت کا اسی وجہ سے رواج و حکم ہے۔ 18ویں ترمیم جلدبازی میں نہیں بلکہ عشروں کی مشاورت کے بعد وجود میں لائی گئی تھی۔ اس پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا۔ اس ترمیم سے پاکستان کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوا ہے۔
اب عمران خان کا 18ویں ترمیم کے بارے میں بیان آیا ہے، جس سے چھوٹے صوبوں کے باشندوں کو خدشہ لاحق ہوا ہے کہ کہیں موجودہ حکومت اس کو چھیڑنے کا ارادہ تو نہیں رکھتی؟
خان صاحب! وفاق کے پاس تین شعبے ہیں۔
٭ دفاع۔
٭ کرنسی۔
٭ خارجہ پالیسی۔
اس وقت دفاع کو بجٹ مل رہا ہے۔ خود (ماشاء اللہ) پورے پاکستان میں ہماری فوج کاروبار کر رہی ہے۔ عسکری سیمنٹ، فوجی فرٹیلائزر، عسکری بینکنگ سسٹم، ڈی ایچ ایز، ایف ڈبلیو او وغیرہ۔ اس کاروبار سے بھی فوج کو اچھی خاصی ریونیو مل رہی ہے۔ باقی رہ گئی کرنسی اور خارجہ پالیسی ان میں بھی 18ویں ترمیم کی وجہ سے مسئلہ نہیں۔ سول فنڈز میں اگر مسئلہ ہے، تو وفاق اپنی ریونیو میں اضافہ دوسرے طریقوں سے کر سکتا ہے۔ چھوٹے صوبے کی گردن پر پاؤں رکھنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ہمیشہ سے زیادہ آبادی کی وجہ سے پاکستان کے وسائل پر پنجاب قابض رہا ہے۔ 70 سالوں سے ہمارا حق کھایا ہے۔ شخصی و فکری آزادی کے اس دور میں اب یہ ممکن نہیں۔ اگر اس ترمیم کو چھیڑا گیا، تو اس سے ملک کے چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی ایک بار پھر بڑھے گا، جس سے پی ٹی ایم، اے این پی اور دیگر قوم پرستوں کو آکسیجن ملے گی اور وفاق کمزور ہوگا۔ اس صدی میں یہ ممکن نہیں کہ کمزور قومیتوں کو دبا کے رکھا جائے، بلکہ یہ صدی شیئرنگ کی صدی ہے۔ شیئرنگ فارمولے سے ہی پُرامن بقائے باہمی ممکن ہے۔ دبانے، گرانے اور ستانے کا دور گذر چکا۔ 18ویں ترمیم کو اپنی اصلی شکل اور سالم صورت میں رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔