گذشتہ دنوں ایک مریض کے ساتھ معائنہ کے لیے پمز اسپتال اسلام آباد جانا ہوا۔ معائنہ کے وقت اسپتال میں تعینات سوات کے ایک ڈاکٹرسے ملاقات ہوئی۔ حال احوال جاننے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کے دوران میں کہا کہ ہر ماہ پمز اسپتال میں ملاکنڈ ڈویژن سے سیکڑوں مریض معائنہ کی غرض سے آتے ہیں، جن میں زیادہ تر متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہی ہوا کرتے ہیں۔ علاج معالجہ کے علاوہ یہاں قیام، کرایہ اور دیگر ضرویات کی مدد میں مذکورہ لوگوں کا کافی پیسہ خرچہ ہوتا ہے اور بیشتر لوگ اسے مشکل سے برداشت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول، ایم ایم اے دور میں شروع ہونے والا 500 بیڈز پر مشتمل سیدو شریف اسپتال ایک بڑا منصوبہ ہے، جس میں مختلف امراض کے حوالہ سے ڈاکٹر ز اورعملہ ہر وقت موجود ہوگا۔ اسپتال کی بلڈنگ تیار ہے، لیکن مشینری اور عملہ کی تعیناتی کئی سالوں سے حکومتی سستی اور عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ اگر مذکورہ اسپتال عام عوام کے لیے کھول دیا گیا، تو ملاکنڈ ڈویژن کے ہزاروں مریضوں کا بھلا ہوگا۔
قارئینِ کرام! ایم ایم اے دورِحکومت میں اس وقت کے مینگورہ شہر کے ایم پی اے محمد امین نے یہاں کے عوام کے دیگر شہروں کو اپنے مریضوں کو منتقل کرنے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے یہاں کے عوام کے مفاد میں دن رات جدوجہد کی۔ مذکورہ اسپتال کی منظو ری کے لیے انہوں نے اسمبلی فلور پر عوام کے تکلیف کو نہ صرف بہتر طریقے سے بیان کیا بلکہ اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، جس کی بدولت ایم ایم اے دور میں پانچ سو بیڈز پر مشتمل اسپتال کی نہ صرف منظوری ہوئی بلکہ اس کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اے این پی دور میں اسپتال کی بلڈنگ پر تعمیراتی کام مکمل ہوا۔ اب تحریک انصاف کا دوسرا دور شروع ہے، لیکن ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق اسے عام لوگوں کے لیے تاحال نہیں کھولا جاسکا۔ شائد ایسے ہی کسی موقع پر غالبؔ چچا کہہ گئے تھے کہ "کون جیتا ہے تیری زُلف کے سر ہونے تک”
الیکشن سے پہلے مینگورہ شہر سے تعلق رکھنے والے دبنگ ایم پی اے صاحب نے اس منصوبے کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا اور ایک عدد برقی مشین اسپتال میں رکھنے کے موقع پر ایک عدد دبنگ اخباری بیان جاری کیا کہ الیکشن کے بعد اسپتال کو مریضوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ اس دعویٰ کو 8 مہینے پورا ہونے کو ہیں مگر اس کا زور دیکھیں کہ وہ صاحب ایک عدد برقی مشین کے عوض دوبارہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں، لیکن اسپتال پشتو مقولہ ’’د پکئی وادہ‘‘ کے مصداق تاحال بند پڑا ہے۔
پچھلے دورِ حکومت میں تو ایک ایم پی اے صاحب کے بارے میں مشہور تھاکہ اس نے ایک تقریب کے دوران میں کہا تھا کہ ہمارا کام عوامی مسائل کا حل ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ اسمبلی فلور کا سہارا لیا جائے۔ موصوف کے لیے عرض ہے کہ عوامی مسائل تب حل ہوا کرتے ہیں جب انہیں اسمبلی فلور پر چھیڑا جائے اور ایوان میں اس پر بحث کی جائے۔ بقولِ شخصے ’’ممبران صاحبان قانون سازی میں مصروف ہیں۔‘‘ قصور ہمارا بھی ہے کہ کسی ’’عوامی نمائندے‘‘ کو یہ یاد نہیں دلایا کہ جنابِ عالی! آپ ہمارے منتخب نمائندے ہیں اور ہم نے آپ لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے اسمبلی میں بھیجا ہے۔ صحت، تعلیم اور اس قبیل کے دیگر بنیادی حقوق کی ہم آپ سے بھیک نہیں مانگتے۔ آپ حضرات جب ہماری جیب سے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں، تو ہمارا حق بھی ہمیں دیں۔ یہ کسی نواز، زرداری یا عمران کا عوام پر احسان نہیں، مذکورہ ’’ہستیاں‘‘ قوم کے خدام ہیں۔ اس لیے ببانگِ دہل کہنا چاہیے کہ ’’ساڈا حق اتے رکھ!‘‘

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔