نئے پاکستان کی تکمیل سے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف نے 5 سال خیبر پختونخوا میں اپنے تئیں مثالی حکومت چلائی۔ "بلین ٹری سونامی” اور "بی آر ٹی” جیسے منصوبے ازروئے ندامت شروع کیے گئے، جو تاحال مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
جیسا کہ پاکستان میں ہوتا چلا آیا ہے،جولائی 2008ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل اس وقت کی صوبائی حکومت نے بھی مختلف شہروں اور علاقوں کی تزئین اور آرائش کے لیے "خطیر رقم” فراہم کی، جس میں سے 1 ارب 18 کروڑ روپے مینگورہ شہر کے لیے مختص تھے۔ منصوبے کے تحت مینگورہ کو خوبصورت بنانا مقصود تھا۔ لہٰذا اس دھرتی کے "کرتا دھرتا” مل بیٹھ گئے اور منصوبہ شروع ہوا۔ مینگورہ سیدوشریف روڈ کے دونوں اطراف پہلے سے موجود فٹ پاتھوں کو مشینری لگا کر اکھاڑ دیا گیا اور انہیں از سرِ نو تعمیر کیا گیا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرح سے فضول خرچی کی گئی۔ کالج کالونی اور شہر کی مرکزی سڑک پر فٹ پاتھ بنانے کے لیے پرانے قیمتی درختوں کو کاٹا گیا۔ باقی ماندہ درختوں کے اردگرد کنکریٹ ڈال کر ایک سال کے اندر اندر انہیں منصوبے کے تحت سوکھنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ عمل انتہائی احمقانہ اور مجرمانہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت سڑک کی دونوں جانب نقش و نگار کیا گیا ہے، جو کہ ایک بڑا مگر "غیرضروری” کام ہے۔
اس منصوبے میں بائی پاس روڈ کو بھی شامل کیا گیا جو ایک سال پہلے ہی تعمیر ہوئی تھی اور بہتر حالت میں تھی۔ لہٰذا اس کو شامل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ سنجیدہ حلقوں نے اس منصوبے پر کئی بار برملا اپنے تحفظات کا اظہار کیا، مگر اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بات یہاں پر آکر ختم نہیں ہوتی۔ کالج کالونی کے اندر نئے فٹ پاتھ کی تعمیر سے سڑکیں تنگ ہوگئیں اور وہاں موجود مکانات کی سطح سڑکوں کے نیچے رہ گئی۔ یہاں شہری حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ قانون کے مطابق اس منصوبے کو عوامی مباحثے کے لیے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
قارئین، یہ صرف اس ایک منصوبے کی کہانی نہیں۔ کالام کی خوبصورتی کے لیے تقریباً دو ارب روپے کی خطیر رقم ایسے ہی غیرضروری منصوبے کی نذر کی جا چکی ہے۔ چوں کہ صوبہ میں انصاف کے علمبرداروں کی حکومت تھی، لہٰذا کسی منتخب نمائندے یا ذمہ دار ادارے نے سوال پوچھنا تک گوار نہیں کیا۔ یہ منصوبہ عام انتخابات کے دوران میں عمل پذیر ہو رہا تھا اور حکمرانوں کو پیسہ خرچ کرنے کی پڑی تھی، تاکہ ان منصوبوں کو انتخابی مہمات میں بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹورا جاسکے۔ عام انتخابات میں "خاص لوگوں” نے ایک بار پھر صوبے کی باگ ڈور اُنہی ہاتھوں میں دے دی، لیکن چھے ماہ گزرنے کے باوجود منصوبہ وہاں رکا ہوا ہے۔ ایک ظلم یہ ملاحظہ ہو کہ سڑک پر شمسی قمقموں کے لیے کھمبے تو لگائے گئے ہیں، مگر ان میں ابھی تک قمقمے نصب نہیں کیے گئے۔
"یوہ ویم بلہ رایادیگی” کے مصداق سنٹرل ہسپتال کی دیوار پر نقش و نگار کے نام پر کی جانے والی لیپا پوتی اتر چکی ہے، جسے دوبارہ مرمت کیا جا رہا ہے۔ منصوبے پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں کی رقوم دینے کا عمل بھی ابھی باقی ہے، جب کہ تمام تر قوانین اور طریقۂ کار کو بالائے طاق رکھنے کے باوجود منصوبے کے لیے مختص رقوم کلی طور پر خرچ نہیں کی جاسکیں۔ بیوٹیفکیشن پلان کی پول اندورنِ شہر تعفن اور بدبو  کھول دیتی ہے۔ نکاسیِ آب کے نالے گندگی سے بھرے پڑے ہیں اور شہر غلاظت سے اٹا پڑا ہے۔ سبزی منڈی، عوامی لاری اڈّا، مینگور شہر سے گزرنے والی دو ندیاں اور ایک نہر سمت تمام عوامی مقامات گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ شہر کے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا نظام تو در کنار اسے آبادی سے دور لے جانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں مل رہی۔ لہٰذا کئی مرتبہ شہریوں نے اداروں پر دریائے سوات کو آلودہ کرنے کا الزام بھی لگایا ہے اور احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ ان جیسے مسائل کے ہوتے ہوئے بھی سرکار نے اتنی بڑی رقم کیوں ایسے کاموں پر خرچ کی جس سے شہریوں کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے؟ بدعنوانی کے خلاف متحرک ادارے اس حوالہ سے تحقیقات کیوں نہیں کر رہے؟
قارئین، حکمران جماعت نے اپنے گذشتہ دورِ اقتدار میں احتساب کمیشن قائم کرتے ہی اسے تالے لگا دیے اور دوسری بار تختِ پشاور پر قابض ہونے کے بعد اس کمیشن کے وجود ہی کو ختم کر دیا۔ اس اقدام کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کرپشن کے خلاف قومی اور صوبائی حکومتوں کے نعرے ان کے منصوبوں کی طرح "بناؤ سنگار” سے آگے کچھ نہیں۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔