مئی 2015ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات پر صوبائی حکومت نے خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات منعقد کیے۔ جس کے نتیجے میں صوبہ بھر میں 1 سٹی گورنمنٹ، 24 ضلعی، 67 تحصیل اور ٹاؤن اور 3 ہزار 5 سو 1 دیہی یا بلدیاتی حکومتیں قائم ہوئیں۔ ضلع سوات میں 8 لاکھ 16 ہزار سے زائد رائے دہندگان نے بالترتیب 67 ضلع کونسلرز، 67 تحصیل، 1566 جنرل، 291 خواتین، 212 نوجوان، 213 مزدور کسان اور 19 اقلیتی کونسلرز کو ووٹ کے ذریعے منتخب کیا۔ یہ تمام منتخب نمائندے مئی 2015ء سے اب تک 1 ضلعی کونسل، 60 تحصیل کونسلز، 170 ولیج کونسلز اور 44 نائبر ہوڈ کونسلز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خیبر پختون خواہ حکومت نے سنہ 2013ء کی مقامی حکومتوں سے متعلق ایکٹ نافذ کرتے ہوئے ان حکومتوں کو ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد حصہ دینے کا اعلان کیا۔ یہ حکومتیں شائد اگست کے مہینے میں ختم ہونے جا رہی ہیں۔ اگرچہ خیبر پختون خوا حکومت نے ایکٹ اور اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرکے ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد حصہ بلدیاتی اداروں کو فراہم نہیں کیا، تاہم خیبر پختون خوا حکومت کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق موجودہ بلدیاتی حکومتوں کے قیام سے لے کر اب تک صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو تین سو ایک بلین روپے کا غیر ترقیاتی اور تقریباً 75 بلین روپے کا ترقیاتی بجٹ فراہم کر دیا ہے۔ ان مالی وسائل کو صحت، تعلیم، سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر اور مفادِ عامہ کی دیگر سرگرمیوں پر خرچ بھی کیا گیا ہے۔ نافذالعمل ایکٹ اور بلدیاتی اداروں کے قوانین میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم بھی کی گئی ہیں، جن کے اس نظام پر دور رس منفی و مثبت نتائج بھی مرتب ہوئے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت گاہے گاہے بلدیاتی نظام کے تسلسل کے اعادے کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام میں بہتری کا بھی عندیہ دے چکی ہے۔
سننے میں آیا ہے کے موجودہ بلدیاتی نظام سے ضلعی حکومت کو ختم کرنے اور مقامی حکومتوں کو تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک محدودکیا جا رہا ہے۔ سرِ دست ان تبدیلیوں سے اختلاف یا اتفاق تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن تبدیلی لانے کے طریقۂ کار پر بات ضروری ہے۔ اگر ایک طرف مقامی یا بلدیاتی اداروں کے قیام پر عوامی پیسا لگتا ہے، منتخب لوگ اپنا وقت لگاتے ہیں، حکومت مالی وسائل فراہم کرتی ہے، تو دوسری طرف شہری ان حکومتوں کو نہ صرف منتخب کرتے ہیں بلکہ ان سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔
اس نظام میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں شامل تمام حصہ دار اپنا کردار ادا کریں، مگر کیسے؟ خیبر پختون خوا سمیت پاکستان کے کسی بھی صوبے میں بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ایسا نظام یا ادارہ موجود نہیں، جو حصہ داروں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھے۔ اس لیے لازمی ہے کہ بلدیاتی اداروں میں مجوزہ تبدیلیاں لانے سے پہلے ان کے کام اور فعالیت کو عوامی شراکت سے جانچا جائے۔ موجودہ منتخب بلدیاتی نمائندوں، ان اداروں میں کام کرنے والے سرکاری اہلکاروں، خواتین، نوجوانوں اور اقلیتی نمائندگان سے ان کے چار سالہ تجربات اور کام کے بارے میں معلوم کیا جائے۔ عوام سے ان کی کارکردگی بارے پوچھا جائے۔ بلدیاتی اداروں کی کار کردگی کے نتیجے میں رونما ہونے والی چھوٹی بڑی مثبت اور منفی تبدیلیوں اور محرکات کا غیر جانب دارانہ طریقہ سے پتا چلایا جائے۔ ضلع، تحصیل، یونین کونسل اور ویلج کونسل کی سطح پر مالی وسائل کی تقسیم اور منصوبوں کے انتخاب کے لیے اپنائے گئے طریقۂ کار کا مطالعہ کیا جائے۔ ان معلومات اور اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے، تو پتا چلے کہ نافذالعمل ایکٹ اور متعلقہ قوانین، بلدیاتی نمائندگان کو تفویض شدہ اختیارت اور فرائض اور ان اختیارات کے استعمال یا فرائض کی انجام دہی میں کون سے عوامل نے کیا کردار ادا کیا۔ عوامی رائے کی روشنی میں منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل کو ایکٹ میں ترامیم کے ذریعے ہٹا دیا جائے، اور پہلے سے موجود مثبت عوامل کو تقویت دینے کے ساتھ ان جیسے مزید عوامل شامل کیے جائیں، تو ایک پائیدار بلدیاتی نظام وجود میں آ سکتا ہے۔ بشرط یہ کہ ہماری سیاسی پارٹیاں یہ بھول جائیں کہ اگر بلدیاتی ادارے مضبوط ہوئے، تو ان کے نمائندگان کیا کریں گے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہماری جیسی صوبائی و وفاقی حکومتوں کے ساتھ بلدیاتی حکومتیں موجود ہیں۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے، جس میں عوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ و ہاں کے لوگ عام انتخابات کی نسبت بلدیاتی انتخابات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ کیوں کہ بلدیاتی ادارے شہریوں کو بنیادی خدمات اور سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔