اگرچہ گذشتہ چند ہفتے پاک بھارت تناؤ کی نذر ہوگئے، لیکن اس دوران میں پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کو سرجوڑ کر بیٹھنا پڑا۔ انہیں طویل عرصہ سے گومگوں کی پالیسی سے نکل کر اہم اسٹرٹیجک فیصلے کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان نے بطورِ ریاست اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا عزم پوری قوت سے دہرایا۔ اگرچہ ایسے اعلانات پہلے بھی بہت کیے جا چکے ہیں، لیکن اب کی بار محسوس ہوتا ہے کہ حکومت، عسکری لیڈر شپ، سیاسی پارٹیاں اور سماج کی قوتِ برداشت جواب دے چکی اور وہ کالعدم تنظیموں کا وجود مزید گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے علما نے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے متفقہ طور پرنان اسٹیٹ ایکٹرز کے وجود کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر ریاسست کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔
اتفاق سے پاک بھارت کشیدگی کے عروج کے دوران میں ہی سیکرٹری خزانہ نے ’’تبدیلی سرکار‘‘ ہی نہیں بلکہ راولپنڈی کی مقتدر قوتوں کو بھی آگاہ کیا کہ فنانشنل ایکشن فورس (ایف اے ٹی ایف) پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔ اگر کالعدم تنظیموں کے خلاف ٹھوس اور نظر آنے والے اقدامات نہ کیے گئے۔ برسوں سے سروں پر منڈلاتاخطرہ حقیقت کا روپ دھارچکا، تو اقتدار کی راہداریوں میں کھلبلی مچی۔ 44 کی لگ بھگ کالعدم تنظیموں کے سرکردہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اثاثے منجمد کرکے ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ وزیراعظم سے لے کر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ تک نے بیک زبان کہا کہ بہت ہوچکی۔ اب یہ ’’کاروبار‘‘ نہیں چلے گا۔ میڈیا ہو یا سول سوسائٹی، سب یک زبان ہیں کہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے۔ وہ کسی لشکر کا محتاج نہیں۔ جہاں تک کشمیر میں جاری مزاحمت کا تعلق ہے، اس کا رنگ ڈھنگ جس قدر مقامی ہوگا، دنیا میں اسے پذیرائی ملنے کا امکان بڑھ جاتاہے۔ پلوامہ کے واقعے نے دنیا میں کشمیر کو ملنے والی مثبت پذیرائی کو سست روی کا شکار کیا۔ دہشت گردی کا الزام جو اَب کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا، اسے دوبارہ زندہ کیا اور پاکستان کو جنگ کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔ جوہری صلاحیت کے حامل ممالک کے درمیان روایتی جنگ نہیں ہوتی، بلکہ صرف مشترکہ تباہی کا نوحہ لکھا جاتا ہے۔ اس معرکے میں کوئی ہارتا ہے نہ جیتتا۔ پاکستان نے اجتماعی طورپر جنگی جنون بھڑکانے والوں کو مسترد کیا۔ پارلیمنٹ میں بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان ہوا، تو ایک آواز بھی اس کے خلاف نہ اٹھی۔ عمران خان نے عوام کو ’’ادلے کا بدلا‘‘ کی پست ذہنی سطح سے اوپر اٹھا کر وسیع تر علاقائی اور خطے کی ترقی اور فلاح و بہبود کے تناظر میں سوچنے پر قائل کیا۔
کشیدگی کے حالیہ ہفتوں کے دوران میں کئی سفارت کاروں اور غیر ملکیوں سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ ہر کسی نے وزیراعظم عمران خان کے طرزِعمل کو سراہا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے سینیٹ کی دفاعی امور کی کمیٹی کے اجلاس میں جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اور استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گذشتہ چھے ماہ کے دوران میں جس قدر تعاون کیا، وہ اس سے پہلے 18 برس میں دکھائی نہیں دیا۔
یہ کالم نگار گذشتہ اٹھائیس برسوں سے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے امور کا مشاہدہ بہت قریب سے کر رہا ہے۔ پہلی بار نیویارک ٹائمز جسے امریکیوں کی بائبل کہا جاتا ہے، نے کھل کر کشمیر پر ایک شان دار ادارایہ لکھا۔ نیویارک ٹائمز کا اداریہ کسی ایک فرد یا ایڈیٹر کی رائے نہیں تصور ہوتی بلکہ اخبار کا بورڈ، ایڈیٹر اور پبلشر اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ سات مارچ کے اخبار میں شائع ہونے والے اداریہ میں کہا گیا: ’’پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئی ہے، مگر یہ نسبتاً کمی مسئلہ کا حل نہیں۔ پاکستان اور بھارت جب تک کشمیر کا بنیادی تنازعہ حل نہیں کرتے، دونوں ملکوں کو خوفناک صورتحال کا سامنا رہے گا۔‘‘
ٹائمز نے پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے کے لیے عالمی کردار کی وکالت کی اور واضح کیا کہ عالمی دباؤ کے بغیر دیرپا حل ناممکن ہے، اور ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار رہے گا۔ اداریہ کے مطابق مسئلہ کا حل پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان بات سے نکلنا چاہیے۔دوہفتے قبل یورپی یونین کی انسانی حقوق کمیٹی نے برسلزمیں ’’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘‘ پر ایک سماعت کی۔ اس اجلاس کی اندرونی کہانی وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اور کشمیر کونسل برائے یورپ کے سربراہ علی رضا سیّد سے سننے کو ملی، تو یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ مغرب میں اب اداراتی سطح پر کشمیریوں کے دکھ درد کو محسوس کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے کشیدگی کے دوران میں ظاہر کیے گئے تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر اصرار پر خوشگوار حیرت کے ساتھ دنیا اس کی طرف مائل ہوئی۔ اگر چہ عشروں پر محیط شکوک و شبہات کی گرد جلدی دھل نہیں سکتی، لیکن کم از کم پاکستان ایک درست راستہ پر توگامزن ہوگیا، جہاں عالمی طاقتیں تسلیم کرنے لگیں کہ تنازعات کے حل میں پاکستان کی مدد کی جائے۔ خاص طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کی مرکزیت پر زور دے کر پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
دنیا بھر میں پاکستان کی موجودہ حکومت کی غیر مسلم آبادی کے تئیں ہمدردی اور انہیں معاشرہ میں برابر کا مقام دینے کی کوششوں کو بھی حیرت اور دلچسپی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ہندو مذہب کے پیروکاروں کو برا بھلا کہنے پر پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی چھٹی۔ وزیراعظم کی طرف سے دیگر مذہب کے پیروکاروں کو قومی دھارے میں کھلے دل کے ساتھ شامل کرنے کی پالیسیوں کے اعلان نے پاکستان کے امیج کو مثبت طریقہ سے اُجاگر کیا۔
کئی دہائیوں بعد امید پیدا ہوئی کہ پاکستان عمومی طور پر درست راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ اگر یہ تسلسل برقرار رہا، تو بعید نہیں اگلے چند برسوں میں پاکستان خطے میں ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوچکا ہو۔ پاکستان پر قدرت مہربان ہو رہی ہے۔ اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔

…………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔