آپ فیاض الحسن چوہان اور فیصل واڈا سے اختلاف رکھنے اور ان کو گنہگار ٹھہرانے سے پہلے صرف ایک بار سیاست دانوں کے رویوں کا سرسری مطالعہ کیجیے اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے، کیا ہمارے سیاست دان ملک و قوم کی بقا، ترقی اور مستقبل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟
جب قائداعظم بیمار تھے اور زیارت میں بسترِ علالت پر تھے، تو آخری دنوں میں بیماری کی تکلیف سے زیادہ اس کو پاکستان اور بالخصوص کشمیر کی فکر کھائی جارہی تھی۔ کرنل الٰہی بخش جو اُن کے معالج تھے اپنی کتاب "With Quid-e-Azam during his last days.”” میں کافی تفصیل سے ان تلخ یادوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بسترِ مرگ پر بیماری سے زیادہ قوم کی فکر اس کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی تھی۔ نوزائیدہ مملکت میں ایک صرف ان کی بہن ہی ان کے سرہانے بیٹھی ہر وقت ان کی عیادت میں مصروف رہتیں اور پھر جب ان کو کراچی لے جایا جا رہا تھا، تو عین سنسان سڑک پر وہ ایمبولینس کافی دیر تک کھڑی رہی، جس میں قائد انتہائی گرمی کی وجہ سے خود کو حبس میں محسوس کر رہے تھے۔ انتہائی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس پوری کتاب میں کسی بھی جگہ پر سیاست دانوں کی آہیں، پریشانیاں اور قائد کے حوالے سے فکر درج نہیں۔ کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ملک کا بانی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو اور سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہوں؟
قائد کی وفات کے بعد یہ نوزائیدہ ملک بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا تھا اور سیاست دان بند کمروں میں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ آپ اندازہ لگالیں کہ لیاقت علی خان جو قائد اعظم کے بعد وہ واحد سیاست دان تھے جن سے امیدیں باندھ دی گئی تھیں، لیکن وہ بھری محفلوں میں پاکستان کو ’’مسلم لیگ کا بچہ‘‘ کہہ کر پکارتے اور اس وقت مخالفین اسی فقرے کا سہارا لے کر مسلم لیگ پر جوابی حملہ کرتے۔ ان غیر سنجیدگیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کا آزادی کے بعد بہت نقصان ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
لیاقت علی خان1950ء میں پشاور میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران میں جذباتی ہو کر کہتے ہیں کہ ’’پاکستان، مسلم لیگ کا بچہ ہے۔ پاکستانیوں کو برساتی مینڈکوں کی طرح ہر روز جنم لینے والی پارٹیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔‘‘
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو انتہائی سنجیدہ فکر رکھنے والے رہنماؤں کی ضرورت تھی، لیکن جن سے امیدیں تھیں، وہ کسی اور کھیل میں مصروف تھے۔
چوہدری رحمت علی تحریکِ پاکستان کے ایک فعال کارکن تھے۔ آپ کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مسلمانوں کا مقدمہ دلیری سے لڑا۔ آپ نے 1933ء میں ’’ڈی کلیریشن آف پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ تیار کیا جس کی تاریخی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس پمفلٹ کے ساتھ ایک ’’کور لیٹر‘‘ بھی تھا جس کے اوپر لکھا گیا تھا: "Now or Never. Are We to live or perish forever.” اس پمفلٹ میں ان علاقوں کو ایک ملک میں ضم کرنے کا کہا گیا تھا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پہلی دفعہ ’’پاک ستان‘‘ کا نام جو بعد میں صحیح تلفظ کی خاطر ’’پاکستان‘‘ کر دیا گیا شامل تھا۔ آپ اندازہ لگالیں، یہ پمفلٹ اتنا اہم تھا کہ اس کے بعد مسلمانوں کی تحریکِ آزادی نے زور پکڑی اور چوہدری رحمت علی کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اس پمفلٹ پر اگر حقیقت میں عمل درآمد کیا جاتا، تو پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں ایسی نہ ہوتیں جیسی اب ہیں۔ بعد میں جب ہندوستان کو سرکاری طور پر تقسیم کیا گیا، تو چوہدری رحمت علی اس کے انتہائی خلاف تھے اور قائد اعظم سے ناراض بھی تھے۔ سیاست دانوں کی ذاتی رنجشوں کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اسی چوہدری رحمت علی کو ملک بدر کیا گیا تھا اور پھر اس کی موت بھی ملک سے باہر ہی ہوئی اور آج بھی باہر ہی دفن ہیں۔
لیاقت علی خان کو جب کمپنی باغ (جو اَب لیاقت باغ ہے) میں شہید کیا گیا، تو گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو بہت دیر بعد پتا چلا۔ اور حیرانی کی بات یہ ہے مرکزی کابینہ کا کوئی خصوصی اجلاس طلب نہیں کیا گیا۔ مرحوم کی لاش ابھی کراچی پہنچائی بھی نہیں گئی تھی کہ سیاست دانوں کا ایک جمِ غفیر گورنر جنرل پر نئے وزیراعظم کے اعلان کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔ ہر طرف صرف اقتدار اور مفاد کی لڑائی تھی۔ اُس وقت کے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین اور شہاب الدین جوکہ ناظم الدین کے بھائی تھے، نے مشترکہ طور پر گورنر جنرل کو یہ مشورہ دیا کہ آپ خود وزیر اعظم بن جائیں اور غلام محمد کو گورنر جنرل کا عہدہ دے دیں۔ آپ یقین کریں معمولی سفارش پر ایک بیمار انسان غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا اور ناظم الدین خود وزیر اعظم بن گئے۔ آپ گورنر جنرل غلام محمد کی ’’بیمار دور‘‘ کا جب مطالعہ کریں گے، تو پھر کبھی آپ کو موجودہ سیاست دانوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں رہے گا۔ وہ وقت ہے اور آج کا وقت، انہی سیاست دانوں کی غیر سنجیدگی پاکستان کے گلے کا طوق بن رہی ہے۔
آپ فیاض الحسن چوہان اور فیصل واڈا کی گفتگو کا بالکل بھی برا نہ منائیں، کیوں کہ یہ بدقسمتی سے ہماری تاریخ ہے جس میں سب کچھ سدھر سکتا ہے، سوائے ’’سیاست دانوں‘‘ کے۔
آپ خود اندازہ لگالیں کہ فروری میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شدید تناؤ آیا اور عین ممکن تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے، لیکن پھر معاملات کسی حد تک سدھر گئے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی پوری سیاسی قوت ایک پیج پر آگئی اور یہی ہماری سب سے بڑی جیت تھی جس کو دیکھ کر سب حیران تھے اور عقل و دانش والے یہی سوچ رہے تھے کہ اگر پندرہ دن کے بحران کی وجہ سے یہ ایک ہوسکتے ہیں، تو ساتھ دہائیوں کی تباہ کن صورتحال کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ اس موجودہ بحران میں اگر پاکستان کی بقا تھی، تو کیا پچھلے 70 سال سے پاکستان جس اندرونی حالتِ جنگ میں ہے، کی وجہ سے پاکستان کو نقصان نہیں ہو رہا؟
میں سمجھتا ہوں کہ فیاض الحسن چوہان اگر ہندوؤں کی بے عزتی پر اتر آتا ہے، تو یہ اس کی غلطی نہیں۔ یہ اس گلے سڑے نظام کی غلطی ہے جس میں سیاست دان کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک جب کوئی کچھ نہیں بنتا، تو سیاست دان بن جاتا ہے۔ آپ آج ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے، پورے پاکستان میں بہت ہی کم ایسے سیاست دان ہوں گے، جو سمجھ بوجھ، سنجیدہ سوچ اور علم رکھنے والے ہوں گے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ کو بلدیاتی سطح پر بھی بہت کم سنجیدہ اور ملک سے محبت رکھنے والے سیاست دان ملیں گے۔
آپ فیصل واڈا کو بھی معاف کیجیے، کیوں کہ اس بے چارے کو یہ تو تک پتا نہیں کہ اللہ کے بعد افضل کون ہے؟ اور نہ اس کو تاریخ کے دوسرے سیاست دانوں کی طرح کسی نے یہ سکھانے کی کوشش ہی کی ہے کہ اللہ کون ہے اور اللہ کا قانون کیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ قانونِ فطرت کیا ہے؟ آپ فیصل واڈا کو لازمی معاف کیجیے۔ کیوں کہ یہ اکیلا نہیں اس کی طرح سیکڑوں اور بھی ہیں جن کو اسلام، اسلامی اقدار اور اسلامی تاریخ کی کوئی شد بدنہیں اور بھڑکیں مارتے ہیں ملک و قوم کی تاریخ بدلنے کی۔
قارئین کرام! میں سمجھتا ہوں ہم سب کو مل کر پاکستان کے سیاست دانوں کو معاف ہی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ ’’مکافاتِ عمل‘‘ کا شکار ہیں اور شائد ان کو معاف کرنے ہی میں ہماری بھلائی ہے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔