پاکستان تحریکِ انصاف جو ضلع سوات میں ایک مضبوط سیاسی قوت ہے، جس میں کارکنوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ،ان نوجوانوں کی بدولت تحریک انصاف کے موجودہ ممبرانِ اسمبلی الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں جا پہنچے ۔اب الیکشن کے بعداکثریتی نوجوانوں کو ممبران اسمبلی سے جو امیدیں تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ دوسری طرف پارٹی کے مرکزی قائد نے ان نوجوانوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم پر چھپ نہیں بیٹھتے اور برملا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان نوجوانوں میں زیادہ تر وہ سیاسی خودکش بمبار ہیں جو کسی دوسری سیاسی پارٹی کے کارکنوں کو دلائل کے بجائے گالیوں سے سمجھاتے ہیں۔طالبانی خودکش بمبار لوگوں کی جانیں لیتے تھے مگر یہ سیاسی خودکش بمبار چھوٹے بڑے کی تمیز بھول کر دوسروں کی ماں بہن تک کو نہیں بخشتے اور ان کی عزتوں پر وار کر تے ہیں۔ خیر ،تحریک انصاف میں ایسے بھی نوجوان ہیں جو اس ملک میں رہتے ہوئے یہاں کے فرسودہ نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں اور اس کیلئے ہر فورم خصوصاً سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔

نوجوانوں کو پورا یقین تھا کہ ایم پی اے موصوف ٹی ایم او کی پشت پناہی اوراے سی فرخ عتیق کے تبادلے میں اپنا کردار اداکررہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے اس دوران مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کیا اور نتیجتاً ڈیڈک کا دفتر میدانِ جنگ بن گیا

نوجوانوں کو پورا یقین تھا کہ ایم پی اے موصوف ٹی ایم او کی پشت پناہی اوراے سی فرخ عتیق کے تبادلے میں اپنا کردار اداکررہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے اس دوران مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کیا اور نتیجتاً ڈیڈک کا دفتر میدانِ جنگ بن گیا

تقریباً چا ر سال پہلے کی بات ہے جب مینگورہ سٹی کے ایم پی اے فضل حکیم خان نئے نئے ڈیڈک چیئرمین بنے تھے ۔میں ان کے دفتر مبارکباد دینے کیلئے پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ بیان دیتے وقت نام سے مخاطب کرنے والاشخص، ایم پی اے بننے کے بعد بندۂ ناچیز کو سراسر پہچاننے سے انکار ی تھا۔ ہم ڈیڈک دفتر میں موجود تھے کہ اس دوران دیکھا کہ انصاف یوتھ ونگ کے کچھ نوجوان بڑے ہی غصے میں دفتر میں آئے اور ایم پی اے صاحب سے الجھ پڑے۔ مسئلہ کچھ یوں تھا کہ ان نوجوانوں کو ایک ٹی ایم او اور اے سی فرخ عتیق کے تبادلے پر اعتراض تھا۔نوجوانوں کو پورا یقین تھا کہ ایم پی اے موصوف ٹی ایم او کی پشت پناہی اوراے سی فرخ عتیق کے تبادلے میں اپنا کردار اداکررہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے اس دوران مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کیا اور نتیجتاً ڈیڈک کا دفتر میدانِ جنگ بن گیا ۔میں بذات خود نوجوانوں کے اس فعل پر ناراض نہیں ہوا کیونکہ ہم اس فرسودہ نظام سے اتنے عاجز آچکے ہیں کہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر آج تحریک انصاف مقبولیت کی بلندیوں پر ہے، تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کا نعرہ ظلم کے خلاف ہے ۔ اگر عمران خان آج دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح سیاست شروع کردیتے ہیں، تو یقیناً یہ نوجوان ان کے خلاف بھی کمر بستہ ہوجائیں گے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگوں کو اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے میں آسانی ہے۔کسی کو اپنی رائے کا اظہار کرتے دیر نہیں لگتی۔ اگر کسی کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا ہے یا کسی اور کے ساتھ ہورہا ہے، تو سوشل میڈیا کے ذریعے وہ مظالم سامنے آہی جاتے ہیں۔ جو یقینا اس فرسودہ نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔آج کل سوشل میڈیا کئی لوگوں کی آواز بن رہا ہے ۔

جس طرح طاہر کے کیس میں اینٹی کرپشن والوں نے منفی کردار ادا کیا ہے، اس سے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے، جو عمران خان کے وژن سے متاثر تھے

جس طرح طاہر کے کیس میں اینٹی کرپشن والوں نے منفی کردار ادا کیا ہے، اس سے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے، جو عمران خان کے وژن سے متاثر تھے

اسی طرح کی ایک آواز گزشتہ دنوں اسلامپور سے تعلق رکھنے والے طاہر خان نے بلند کی۔ انہوں نے اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حلقے کے ایم پی اے عزیز اللہ گران کی مبینہ کرپشن اور بھرتیوں کے بارے میں باتیں کیں اور اس حوالہ سے اداروں سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ایم پی اے موصوف کی ایک تقریر میں سنا کہ انہوں نے خودمحکمۂ اینٹی کرپشن سے درخواست کی کہ اس معاملے کے بارے میں مکمل چھان بین کی جائے ۔اس مسئلہ پر مزید لکھنے سے پہلے میں اینٹی کرپشن کے حوالے کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ اگر کسی کو یاد ہو تو محکمۂ اینٹی کرپشن سوات میں انتہائی فعال تھی۔ اس ادارے کے سرکل آفیسر عبدالحلیم جو ایک ملنگ انسان ہیں، نے ایسے ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالا کہ جس کے بارے میں کسی کو بات کرنے تک کی جرأت بھی نہیں ہوتی ۔ہر روز اخبارات میں اس ادارے کے کارنامے جلی حروف میں لکھے ہوا کرتے تھے ۔ مگر بدقسمتی سے صوبائی حکومت نے اس ادارے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر ادارے پر ایک سیاسی بندہ مسلط کردیا۔ اس دن سے لیکر آج تک اس ادارے کی کارروائیوں میں پچاس فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔ جس طرح طاہر کے کیس میں اینٹی کرپشن والوں نے منفی کردار ادا کیا ہے، اس سے ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے، جو عمران خان کے وژن سے متاثر تھے۔

اہلیانِ اسلام پور نے طاہر خان کا جس طرح پرتپاک استقبال کیا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایم اپی اے صاحب اس علاقے میں اپنی شناخت کھو چکے ہیں

اہلیانِ اسلام پور نے طاہر خان کا جس طرح پرتپاک استقبال کیا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایم اپی اے صاحب اس علاقے میں اپنی شناخت کھو چکے ہیں

اب آتے ہیں ایم پی اے عزیز اللہ گران اور طاہر خان کے معاملے کی طرف،کہ ٓاخر ایسا کیا ہوا جو ایم پی اے صاحب سے برداشت نہیں ہوا اور ایک مخلص کارکن کو جیل کی ہوا کھانا پڑی؟طاہر خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایم پی اے صاحب پر بھرتیوں میں مبینہ کرپشن کے الزامات لگائے۔ معاملہ اینٹی کرپشن میں چلا گیا اور نتیجتاً محکمۂ اینٹی کرپشن نے طاہر خان کے خلاف کارِ سرکا ر میں مداخلت سمیت دیگرمقدمات درج کرکے جیل بھیج دیا۔ ایم پی اے صاحب کے مطابق طاہر خان پر چھے دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔طاہر خان پانچ دن جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوگئے۔ اہلیانِ اسلام پور نے طاہر خان کا جس طرح پرتپاک استقبال کیا ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایم اپی اے صاحب اس علاقے میں اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔اس مسئلہ نے ایم پی اے صاحب کو اتنی مشکل میں ڈالا ہے کہ ہمارے ایک کالم نگار دوست، جس نے اس معاملے پر کالم لکھا،ایم پی اے صاحب پراتنا ناگوار گزرے کہ سیدھا ایڈیٹر صاحب کے پاس پہنچ گئے اور انہیں کبھی نرم تو کبھی سخت الفاظ میں دھمکیاں دیں۔میں بذات خود عزیز اللہ گران کی قدر کرتا ہوں اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہو ں۔مگر محترم گران صاحب، آپ نے طاہر خان کے حوالہ سے حلقے کا جو اجلاس بلایا تھا ،جس میں آپ کی پوری تقریر میں نے سنی، اسی تقریر کی بابت میں کچھ سوالات کرنا چاہوں گا ۔ آپ نے کرپشن کی یا نہیں کی، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے ملکی ادارے موجود ہیں، وہ اپنا کام بہتر جانتے ہیں۔ مگر آپ کارکنوں سے خطاب میں کہہ رہے تھے کہ طاہر نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں،اس نے محکمۂ اینٹی کرپشن میں تھوڑ پھوڑ کی۔ عرض ہے کہ کیا طاہر ایک اجرتی قاتل ہے یا علاقہ کا بڑا بدمعاش ہے جو آپ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا؟

کیا طاہر ہالی ووڈ ایکشن فلم سیریز کا’’ جیمز بانڈ‘‘ ہے جو اس اہم ادارے میں توڑ پھوڑ کررہا تھا اور ادارے میں موجوداسلحہ سے لیس اہلکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھ رہے تھے؟

کیا طاہر ہالی ووڈ ایکشن فلم سیریز کا’’ جیمز بانڈ‘‘ ہے جو اس اہم ادارے میں توڑ پھوڑ کررہا تھا اور ادارے میں موجوداسلحہ سے لیس اہلکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھ رہے تھے؟

دوسری اہم بات یہ کہ کیا ہمارے ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ طاہر جیسا شخص وہاں جاکر بے خوف و خطر توڑ پھوڑ کر سکتا ہے ؟ مجھے تو حیرانی ہوئی کہ کیا طاہر ہالی ووڈ ایکشن فلم سیریز کا’’ جیمز بانڈ‘‘ ہے جو اس اہم ادارے میں توڑ پھوڑ کررہا تھا اور ادارے میں موجوداسلحہ سے لیس اہلکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھ رہے تھے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ آپ نے اس ادارے کو سیاسی طور پر استعمال کیا ہے۔ اگر اس کے لئے صوبائی حکومت ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ آپ اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ عمران خان صاحب نے ہمیں محکموں میں مداخلت سے منع کررکھا ہے۔ تو کیا آپ یہ جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ اگر واقعی میں ایسا ہے تو پھر آپ ایم پی اے حضرات نے کس بنیاد پر کڈنی ہسپتال کی پوسٹوں کو آپس میں تقسیم کیا ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ ان پوسٹوں سے خود کو الگ رکھتے اور ہسپتال انتظامیہ خود ہی انٹرویوز کے ذریعے حقدار کو اس کا حق دیتی ،آپ نے اپنی تقریر میں کارکنوں کو یہ اشارہ بھی دیا کہ طاہر کو جواب دیا جائے۔ اب خدا جانے کہ جواب سے مراد آپ کا سیاسی جواب ہے یاپھر کچھ اور……

سوات کی سیاسی فضا اگر اس طرح برقرار رہی، تو یقین جانئے 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ایک سیٹ جیتنے کی بھی امید نہیں ہے۔ آج یعنی اتوار کے دن کا یہ تازہ واقعہ کتنے شرم کی بات ہے، جس میں سوات کے دو ایم پی ایز فضل حکیم اور عزیزاللہ گران اور ان کے کارکنان آپس میں دست وگریباں ہوئے اور مینگورہ ڈگری کالج کی افتتاحی تختی پر ناموں کے بڑے چھوٹے حروفوں پر تصادم ہوا۔ اس موقعہ پر بھی عزیزاللہ گران نے کارکنان میں اشتعال پیدا کیا اور افتتاحی تختی پر ہرے رنگ کی سپرے کروا کر فضل حکیم اور ایم این اے مراد سعید کے ناموں کو مٹا دیا۔

پارٹی کے مرکزی چیئرمین عمران خان،وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت نوجوان کارکن اپنے پارٹی میں ہونیوالی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی جرأت کریں۔ایسا نہ ہو کہ یہاں سے صرف تحریک انصاف کا نام رہ جائے اور……    

میں نے عرصہ قبل ایک کالم لکھا تھا جس میں ،مَیں نے پاکستان تحریک انصاف کو ضلع سوات کی ایک مضبوط سیاسی قوت قرار دیا تھا۔ ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ سوات میں لیڈر شپ کے فقدان کی وجہ سے یہ پارٹی اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو پارٹی کی ضلعی صدارت اور جنرل سیکریٹری کی تقرری میرٹ پر نہیں ہوئی ۔موجودہ ضلعی صدر کوڈویژنل صدر محمود خان نے نوٹیفیکیشن کے ذریعے مقرر کیا جبکہ موجودہ جنرل سیکرٹری گروپنگ کے ذریعے آیا ۔جس سے پارٹی میں موجود ان نظریاتی نوجوانوں اور کارکنوں کی امیدوں پر پانی پھیر گیا ،جو پارٹی کو سوات میں ایک مضبوط قوت دیکھنا چاہتے ہیں۔اگر آج ایک ایم پی اے طاہر خان جیسے مخلص کارکن کو سائیڈ لائن کرنا چاہتا ہے، تووہ کل اقتدار کی کرسی کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ لہٰذا پارٹی کے مرکزی چیئرمین عمران خان،وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت نوجوان کارکن اپنے پارٹی میں ہونیوالی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی جرأت کریں ۔ایسا نہ ہو کہ یہاں سے صرف تحریک انصاف کا نام رہ جائے اور…… ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔