ترقی ٹیکنالوجی سے نہیں آتی سوچ کے ساتھ آتی ہے۔ جب ہماری سوچ عالمی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے، تو پھر ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کا درجہ پانا مشکل نہیں رہتا۔ جب کہ اچھی سے اچھی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے باوجود اگر بطورِ قوم سوچ نے ترقی نہیں کی، تو اس تکنیکی بنیادوں پر کی گئی ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی حوالوں کے علاوہ سماجیات کے جتنے منظر نامے ہیں، پوری دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ جو کل ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوئے تھے، وہ آج جھپیاں ڈال کے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اور جو کل جگری یار تصور کیے جاتے تھے، وہ عالمی منظر نامے میں ایک دوسرے کو خشمگیں نگاہوں سے گھور رہے ہیں۔ کچھ بعید نہیں یہ گھورنے کا عمل باہم دست و گریباں ہونے کا ابتدائی اشارہ ثابت ہوجائے، لیکن عالمی سطح پہ وہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے ماضی میں مستقبل کا سوچا، اور جو سوچا تھا وہ جب حال بن گیا، تو اس حال میں وہ مثبت مستقبل کا آگے سوچنا شروع ہو چکے ہیں۔ مسئلہ سوچ کا ہے کہ ہم مختصر المعیاد سوچ اپنانا چاہتے ہیں یا طویل المدتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟
روس نے افغان امن مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔ یہ کچھ سال قبل ہوتا، تو ایک بریکنگ نیوز کے طور پہ دیکھا جاتا، لیکن موجودہ معروضی حالات میں ان مذاکرات اور اس کے میزبان کے خطے میں دوبارہ سے مضبوط ہوتے کردار کو دیکھا جائے، تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ روس اپنے کردار کا واضح تعین کرچکا ہے کہ وہ جس ہزیمت کا شکار افغان جنگ کے دوران میں ہوا ہے، اس کا رونا اب اور نہیں روئے گا۔ ایک لمحہ سوچئے جو لوگ ماضی میں روس کے ٹکڑے کرنے میں اپنا کردار امریکی آشیر باد یا حقیقی افغان جہاد میں ادا کرتے رہے ہیں، وہی آج روس کی میزبانی میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ کیا یہ ایک دو دن کا قصہ ہے؟ امریکہ و افغان حکومت ان مذاکرات کا حصہ نہیں، لیکن یہ بدلتے حالات کے ساتھ کوئی راکٹ سائنس نہیں رہی کہ وہ مذاکرات کا حصہ نہ بھی ہوں، تو خطے میں روس کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مستقبلِ قریب میں جب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا تو جو لوگ آج روس میں مذاکرات کی میز پہ ہیں ان کا اثر و رسوخ افغانستان میں قائم ہونا یقینی ہے، تو روس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ ایران سے امریکہ کو اس کے سوا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے کہ ایران خطے میں نہ صرف اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے بلکہ شورش زدہ خلیجی ممالک میں امریکی مفادات میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران بنا ہوا ہے اور ایران کا ساتھ ترکی اور روس دے رہے ہیں۔ یہ ساتھ عراق میں ہو یا پھر شام میں، کہیں پہ پوشیدہ، کہیں پہ سامنے۔ تمام صورت حال میں چین خاموشی کی چادر اوڑھے جہاں معاملات کو دیکھ رہا ہے، وہاں سب سے زیادہ فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تو اب ہمیں ازبر ہو چکا ہے۔ ہم صرف سی پیک کو ہی سوچتے ہیں۔ جب کہ چین کے لیے یہ منصوبہ ساٹھ سے زائد ممالک اور تین براعظموں میں اس کی اجارہ داری کا ایک منصوبہ ہے۔ اجارہ داری کے بجائے اگر ہم اس کو سرمایہ کاری کہہ لیں توشاید تھوڑا بہتر محسوس ہو۔ اس منصوبے کی کامیابی کی ضمانت خطے میں امن سے مشروط ہے۔ لہٰذا چین کا خاموش کردار سب سے زیادہ منفعت کا منبع بھی ہے۔ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ چین روس سے زیادہ قریب ہے۔ کیوں کہ امریکہ تو پہلے ہی چین کی صنعتی ترقی سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہے کہ وہاں شٹ ڈاؤن ہے اور چین میں ترقی۔ ہم جو سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے رہے اگر اپنی خوشی سے دے رہے تو افغانستان، بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کو چین کیوں بھلا شامل نہیں کرنا چاہے گا۔ نیپال میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ اور بھارت کی بے چینی بھی بامعنی ہے۔
جائزہ لیجیے اس پورے معاملے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ صرف ایک افغانستان کے مسئلہ کو ہم زیرِ بحث لائیں، تو پاکستان کی پوزیشن دیکھئے۔ جنہیں کل تک ہم اسلام آباد سے گرفتار کروا چکے وہ آج مذاکرات کی میز پہ فیصلہ سازی کی پوزیشن میں بیٹھے ہیں۔ ہم افغان جنگ کا مرضی سے یا مجبوری سے حصہ بن گئے اور امریکہ سر توڑ کوشش کے باوجود جب مقاصد حاصل نہیں کر پا رہا، تو اب حیلے یہاں سے نکلنے کے جاری ہیں۔ ہم ہمیشہ قریب کی سوچ رکھتے ہیں، دور کی سوچ رکھنے والے اذہان ہمارے ہاں مفقود ہو چکے ہیں۔ ہم پالیسیاں بھی تین سے پانچ سال کی بناتے ہیں جب کہ دنیا دہائیوں کی سوچ رکھتی ہے۔ اب یہاں امتحان ہماری خارجہ پالیسی کا ہے۔ دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو ہمارے وزرا، سفرا، مشران، فیصلہ ساز مستقبل کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا پہ واضح کریں کہ ہم نے قربانیاں دی ہیں، ہم آج بھی امن کے ساتھ کھڑے ہیں اور خطے کے کھلاڑیوں پہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے کہ پاکستان خطے کا نہ صرف ایک اہم ملک ہے بلکہ ذمہ دار ایٹمی قوت ہے۔ ہمارا کردار اس خطے میں لازم ہے۔ چین سے ہماری دوستی ہے لیکن دوستی کے تقاضے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم سب کچھ پاک چین دوستی کے زمرے میں ڈالنے کی بجائے اپنے ہاتھ پاؤں ہلائیں گے، تو ہی خطے میں کردار مل پائے گا۔ روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات یقینی طور پر ہمارے پلڑے میں واضح وزن ہیں، لیکن اس کے ساتھ دوسری جانب ہمیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سوچ لینا کہ ہمارے دوست ہمارے دوست ہی رہیں گے، سے باہر نکلنا ہو گا۔ عالمی سطح پہ اب دوستیاں مفادات سے طے ہوتی ہیں۔ ہم دنیا سے لینے میں جس جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمیں اس حوالے سے یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ دنیا کو ہم کیا دے رہی ہے؟ ہم عالمی طاقتوں کے لیے اہم ترین خطے میں تو واقع ہیں، لیکن ہمیں یہ سوچ بھی اپنانا ہوگی کہ اس بہترین جغرافیائی محل وقوع کا ہم خود کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ خارجہ پالیسی کے ذہین دماغ اپنی دھاک بھی بٹھا سکتے ہیں اور اپنا کباڑا کرنے کی بھی ’’صلاحیت‘‘ رکھتے ہیں۔ وہ فائدہ کس صلاحیت سے اٹھاتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی واضح کرے گا۔

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔