بھارت میں گذشتہ دنوں ایک سائنس کانفرنس ہوئی۔ اس میں جو انکشافات ہوئے، اس کے بعد دنیا بھر کے ماہرینِ فلکیات، ارضیات اور طبیعات ششدر رِہ گئے کہ ان کی تحقیق اور سیکڑوں برسوں کی ریاضت کو بھارتی سائنس دانوں نے مٹی کی دھول بناکر اُڑا دیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس پر ان کے عقائد کے غالب ہونے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنا مناسب نہیں، لیکن جب بات سائنس میں ارضیات، زمین و آسمان، تخلیقِ انسانیت کے ساتھ دورِ جدید کی مروجہ ترقی میں مبالغہ آرائی کی ہو، تو جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا دماغی توازن خراب کرنے میں صرف سیاست دانوں کا ہی ہاتھ نہیں بلکہ سائنس دانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ دراصل کائنات کا علم قدرت کا ایسا عطیہ ہے جس کا عالم بننے کے لیے تسخیرِ کائنات کے ابدی اصولوں کو ماننا ضروری ہے۔ کائنات کے اسرار کو جاننے کے لیے کسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا ضروری نہیں، لیکن کائنات کا علم حاصل کرنے والا قدرت کے شاہکاروں اور اسرار سے پردے اٹھتے دیکھ کر خود ہی رب العالمین کے سامنے سرِتسلیم خم کرلیتا ہے۔
عقلی دلائل کے ساتھ عالمِ کائنات ایسے دعوے کرتے رہے ہیں، جو وقت کے ساتھ منکشف ہوئے۔ جب بات عقل کی ہو، تو بات عقل کو لے کر کی جائے گی۔ بات جب سائنس کی ہو، تو بھارتی سائنس دانوں نے ہی اپنے سر پیٹے اور سینہ کوبی کرلی کہ ویسے ہی بھارت میں کروڑوں انسانوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں، وہاں ایسے ایسے ’’سائنسی نمونوں‘‘ پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، تو اس پر ان کے غم میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔ بھارتی سائنس دان فرماتے ہیں کہ ’’سٹیم سیل اور ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی دراصل کورو عہد میں ایجاد ہوئی، جب ایک ماں نے100 بچوں کو جنم دیا۔‘‘ اس سے بھارتی عوام کو پتا چلا کہ ان کے ملک کی آبادی ایک ارب سے زائد کیوں ہے؟ بھارتی چینلوں میں آپ نے دیومالائی قصے کہانیوں پر مشتمل ڈرامے دیکھے ہوں گے۔ سائنس کانفرنس میں بتایا گیا کہ ’’ان کے ایک ہندو بادشاہ کے پاس درجنوں ہوائی جہاز اور ایئرپورٹ کنٹرول سسٹم کا جدید نیٹ ورک تھا۔‘‘ کیمسٹری کے پروفیسر بھی کسی سے کیوں کر پیچھے رہتے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ’’ان کا ایک راجہ دشمنوں کے خلاف میزائل استعمال کیا کرتا تھا۔‘‘ تامل ناڈو کے ایک سائنس دان نے اپنی تقریر میں آئن سٹائن اور نیوٹن کو ’’چور‘‘ قرار دے دیا کہ انہوں نے ان کی کتابوں سے نظریات ’’چربہ‘‘ کیے تھے۔
گووندداس اپنی کتاب ہندوازم میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندو‘‘ کا لفظ سنسکرت زبان کی کسی قدیم یا جدید کتاب میں نہیں ملتا، بلکہ اس کا سراغ پارسیوں کی ژنداووستا میں ملتا ہے۔ ’’ہندوؤں‘‘ کی تاریخ کہیں محفوظ نہیں۔
"George Sarton” اپنی کتاب ‘Introduction to the History of Science” میں لکھتے ہیں کہ ’’وقائع نگاری کے فقدان کے باعث ہندو سائنس کا مطالعہ بہت دشوار ہوچکا۔ ہندوؤں کی بیان کردہ تواریخ اسی صورت قابل یقین سمجھی جاسکتی ہیں، جب ان کی توثیق غیر ہندی (یونانی، عربی، چینی) مؤرخ کریں۔ مؤرخین کی تحقیق ہے کہ ’’1200ء سے پہلے ہندوستان کی تاریخ کے متعلق کوئی قابل تذکرہ کتاب جس کو تاریخی کہا جاسکے، اس ملک کے باشندوں یعنی ’’ہندوؤں‘‘ نے نہیں لکھی۔‘‘
مقدمۂ تاریخِ ہندِ قدیم کے مشہور مؤرخ الفنسٹن لکھتے ہیں کہ ’’ہندوؤں کے حالات کی تحریروں میں سے جو کچھ موجود ہے، وہ جھوٹی کہانیوں اور مبالغہ آمیز تاریخی واقعات سے اس طرح خلط ملط ہے کہ ان میں سے کوئی سچی مسلسل تاریخ نکلنے کی توقع نہیں ہوسکتی۔‘‘
مشہور فرانسیسی عالم ڈاکٹر لبیان ’تمدنِ ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ان ہزار ہا جلدوں میں جو ہندوؤں نے اپنے تین ہزار سال کے تمدن میں تصنیف کیں، ایک تاریخی واقعہ بھی سند کے ساتھ درج نہیں۔ قدیم ہندوؤں کی کوئی تاریخ ہی نہیں اور نہ عمارات اور یادگاروں سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ ان کی تاریخی کتابوں میں یہ عجیب خاصیت (یعنی) ہر چیز کو غلط اور غیر فطری صورت میں دیکھنے کی نہایت بین طور پائی جاتی ہے اور انسان کو اس خیال پر مجبور کرتی ہے کہ ان کا دماغ ہی ٹیڑھا ہے۔‘‘
انڈین سائنٹفک کانگریس ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہندو مت کی قدیم کتاب ’’پران‘‘ رزمیہ شاعری کی کتاب ہے۔ وہ پُرلطف ہے اور اس میں تخیل کی پرواز، قیاس آرائیاں اور اخلاقی درس ہیں لیکن ان کی بنیاد سائنس اور تسلیم شدہ نظریات پر نہیں۔ سائنس دانوں کے اس باوقار اجتماع کو قدیم ہندوستان سے متعلق جھوٹے اور وطن پرستانہ دعوؤں کے لیے استعمال کیا گیا۔‘‘
سائنس کانفرنس کو مودی سے منسوب کیا گیا جس سے عیاں ہوگیا کہ سائنس دان دراصل اس میں جھوٹے اور وطن پرستانہ دعوؤں کی وجہ سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ دنیا بھر میں بھارتی سائنس دانوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
اس موقع پر مجھے بھارتی وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ میں دیا جانے والا وہ بیان بھی یاد آگیا جس میں انہوں نے پاکستان پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے بڑے ’’فخر‘‘ سے بتایا تھا کہ بھارت نے ’’آئی ٹی‘‘ ایکسپرٹ پیدا کیے۔ سائنس میں نام بنایا۔ اب جب میں بھارتی سائنس دانوں کی حالیہ چار روزہ کانفرنس کا حال دیکھتا ہوں، تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے لیکن بھارت جاہلیت اور تاریکی سے باہر نہیں نکل سکا۔
انتہا پسند بھارتی وزیراعظم، انتخابات میں کامیابی کے لیے عجیب و غریب ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ بلاشبہ ضعیف الاعتقادی کم و بیش ہر مذہب میں انسانی اختراع کی وجہ سے پائی جاتی ہے، لیکن جہاں انسان کائنات کے سربستہ رازوں کو منکشف کرنے کی تگ ودو میں شب و روز مصروف ہو اور خلائی تحقیقات کو عقل و شعور کی کسوٹی پر جانچ رہا ہو، وہاں محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور جھوٹے اور وطن پرستانہ دعوؤں کے لیے خرافات کا طرۂ امتیاز بھارتی انتہا پسندوں کے سر ہی جاتا ہے۔سوچ سمجھ سے عاری اور بے وقوفی کی لامحدود لاف زنیوں سے نہ جانے مودی سرکار بھارت کو مزید کب تک تمسخر کا نشانہ بنواتی رہے گی۔ بھارت میں لگتا ہے کہ فاترالعقل افراد کی فراوانی ہے کہ جو ناصرف عقل سے پیدل ہیں بلکہ اتنا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ کوئی تو ایسی منطق پیش کریں، جس سے ان کے لطائف پر اَن پڑھ شخص بھی غور کرسکے۔ مجھے بھارت کے اُن ووٹرز پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے شدت و انتہا پسندی سے متاثر ہوکر ایک ایسے شخص کو تو وزارت عظمیٰ تک پہنچادیا، جس نے پوری بھارتی قوم کو ایک وقت کی روٹی سے محروم کردیا ہے۔ حیرت میں ہوں کہ اب ان کے ’’پڑھے لکھے سائنس دان‘‘ کہلانے والے بھی جنونی اور شعور سے عاری شخص کی حمایت میں اتنا آگے بڑھ جائیں گے کہ دن کو رات اور رات کو دن کہنے لگیں گے۔ بھارتی عوام کو اپنا نمائندہ چننے کا مکمل اختیار ہے، لیکن اتنا سوچنا تو کم ازکم بنتا ہے کہ بے حساب دولت ایسے سائنس دانوں پر صرف کرکے ان کو مزید خود پر مسلط کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ یہ سوچنا بھارتیوں کا کام ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔