پچھلی حکومت میں اکتیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاٹا اور فاٹا کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی۔ مذکورہ آئینی ترامیم اتنی عجلت میں کی گئیں کہ ان پر عمل درآمد کے لیے سیونگ کلاز (یعنی پرانے قوانین کا کیا ہوگا، ایڈمنسٹریشن کس طرح کام کرے گی؟ وغیرہ) کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بس کسی طرح اس مسئلے کو حل کرنا مقصود تھا۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات ’’فاٹا‘‘ کے انضمام کے حوالے سے سینٹ کی کمیٹیوں کو ٹاسک دیا گیا تھا، جس کی فائنڈنگ پر حکومت کو آگاہ کرنا تھا۔ قبائلی پٹی میں لوگوں کے احساسات کو معلوم کرنا اور جرگہ کی تائید سے یہ عمل آخرِکار انجام کو پہنچا۔ تاہم اس میں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کی پارٹیوں کے خدشات تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انضمام ہو۔ وہ قبائلی فاٹا یعنی وفاق کے زیرِ اثر خطہ کو آزاد حیثیت میں دیکھنا چاہتے تھے، یا کم از کم اسے جنوبی پختونخوا میں مدغم کرکے الگ صوبے کے خواہاں تھے۔
دراصل فاٹا کے مسائل اس وقت شدید ہوگئے جس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلیوں کی املاک کو نقصان پہنچا۔ قبائلی در بدر ہوئے۔ اپنے عزیز و اقارب سے دور ہوئے۔ ڈھیر ساروں کو قتل، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کیا گیا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوئی جب پاک افغان بارڈر پر خاردار تار بچھائے گئے۔ اس سے ہو ا یہ کہ چوں کہ سرحد کے اُس پار قبائلیوں کی رشتہ داریاں ہیں، اس لیے ان کے درمیاں گویا ایک دیوار حائل ہوگئی، جس سے قبائلیوں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ بھی ہوا کہ بارڈر کو مضبوط بنانے کے باوجود دہشت گردوں کی کارروائیاں کم نہ ہوئیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ ان مہاجروں کا ایک بڑا حصہ تاحال کیمپوں میں بے یار و مدد گارپڑا ہے۔ جس مقصد کے لیے فوج کو قبائلی علاقوں میں ’’ڈپلائی‘‘ کیا گیا تھا، اگرچہ اس میں کافی حد تک بہتری آئی ہوئی ہے، لیکن فوج وہاں پر پھر بھی تاحال تعینات ہے۔ دہشت گردوں کے پنپنے کے خطرات ابھی تک موجود ہیں۔ ان حالات میں فاٹا کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی خاطر مذکورہ آئینی ترمیم عمل میں لائی گئی ۔
قارئین، تاریخ شاہد ہے کہ ستمبر 2011ء کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد پختونوں پر تاریخی جبر کا ایک نیادور شروع ہوا، جس کی وجہ سے حالیہ قبائلی پختون اپنے حقوق کے لیے ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہوئے مذکورہ ناروا سلوک کے خلاف، اور آئینی و قانونی فریم کے اندر اپنے جائز حقوق کو عدم تشدد کے فلسفے، عوامی جد و جہد اور غیر پارلیمانی مزاحمت کے ذریعے حاصل کرنے کا عزم کر بیٹھے۔ ان لوگوں کا مقصد پارلیمان تھا اور نہ دیگر ترقیاتی اہداف بلکہ ان کا ماننا ہے کہ ہمیں امن، سکون اورعزت چاہیے۔
مذکورہ آئینی ترمیم کا مقصد یہ تھا کہ قبائلی بیلٹ پر انصاف کے نظام میں بہتری کا عنصر نمایاں ہو۔ ان کو آئینی حقوق کی گارنٹی دی جاسکے۔ ان کو قومی دھارے میں قانونی اور ریگولر قوانین کے تحت لایا جاسکے۔ ایف سی آر کو ختم کیا جاسکے اور صوبائی ترقیاتی فنڈز میں ان کو حصہ داری مل سکے۔ فاٹا کے عوام کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاق میں مرحلہ وار ایزادگی کرکے پارلیمان میں رکنیت دی جائے، گو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہے اور نئے حلقے انہیں دیے جا چکے ہیں، مگر اس کے باوجود فاٹا کے مسائل کا احاطہ کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس پر الگ سے ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم سرِدست ان مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کریں گے، جن کا حل کرنا ہنگامی بنیادوں پر ازحد ضروری ہے۔ ان میں سرِفہرست مسئلہ وہ قانونی خلا ہے جو انصاف اورقانون کے ضمن میں سامنے آیا ہے۔ پہلے ’’ایف سی آر‘‘ قانون کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کیے جاتے تھے، لیکن جب سے مذکورہ ترمیم سامنے آئی ہے، اس سے ایف سی آر جیسا کالا قانون اگر چہ ختم ہوچکا ہے، لیکن اس کے ساتھ دوسرے قوانین جو پہلے سے ان علاقوں کو ریگولرائز کرتے تھے، وہ بھی فی الفور ختم ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو قوانین مذکورہ ترمیم سے پہلے موجود تھے، آئینی طریقۂ کار نہ ہونے کی وجہ سے ایک بہت بڑا قانونی خلا پیدا ہوچکاہے، جس کا حکومتی سطح پر کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اب نہ تو وہاں ’’ایف سی آر‘‘ ہے اور نہ پاکستانی قوانین۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اس معاملے پر چپ سادھ لی ہے۔ مذکورہ ترمیم کے بعد بھی ایک دوسرا غیر آئینی ریگولیشن عجلت میں بنایا گیا۔ ایک قانون آیا جس میں مروج قوانین کو تحفظ دیا گیا تھا، لیکن اس وقت اسمبلی سیشن میں نہیں تھی اور بغیر سینکشن لیے مذکورہ قانون کی منظوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اب حالیہ اطلاعات کے مطابق 28 دسمبر2018ء کو صوبائی اسمبلی میں ایک اور مجوزہ ’’بل‘‘ آیا ہے جو کہ اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اس میں مذکورہ آرٹیکل کے ختم ہونے سے پہلے جو قوانین رائج تھے، ان کو جاری رہنے کا تحفظ دیا گیا ہے، لیکن قانون نہ ہونے کی صورت میں وہاں حالات کچھ اس طرح ہیں کہ وہاں اب نہ ایف سی آر کا پولی ٹیکل ایجنٹ مسائل حل کرتا ہے اور نہ انتظامیہ حالات کو قابو کرسکتی ہے، بلکہ ان اہلکاروں اور اداروں کی من مانیوں، زبردستیوں اور غیر قانونی مداخلت نے وہاں پر حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق حکومت خیبر پختونخوا نے ترقیاتی کاموں کے اپڈیٹ کو مہینے میں نظرِ ثانی کرنے اور عدالتوں میں ججوں کی بھرتیوں کے لیے فی الفور حکم دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کب اس پر عمل درآمد ہوتا ہے ۔
درحقیقت جب ہم آرٹیکل دو سو چھیالیس اور دو سو سینتالیس پڑھتے ہیں، تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اول الذکر جس میں ان علاقوں کی تفصیل درج ہے۔مؤخر الذکر میں ان علاقوں کے لیے ریگولیشن اور پاٹا میں لاایکسٹینشن کے لیے قبائلی عوام اور قبائلی جرگے کی مرضی سے کوئی وفاقی یا دیگر صوبائی قوانین صدر کے اپروول کے بعد نوٹیفکیشن گورنر کی جانب سے اکسٹینڈ ہوتا ہے۔ البتہ ہوتا یوں تھا کہ پاٹا کے بہت سارے علاقے ریگولر قوانین کے نافذ ہونے کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ ہی قوانین پر عمل درآمد کرواتی تھی، یعنی ایک طرح سے صوبائی اور وفاقی قوانین کو لاگو کرنے کے لیے گورنر کا ایک نوٹیفکیشن درکار ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ پاٹا کے ان علاقوں کو صوبے کے دائرہ اختیار اور انتظام میں پہلے سے لایا گیا تھا۔ تاہم صرف ٹیکسوں میں اس کو استثنا دیا گیا تھا۔ ٹیکسز سے استثنا کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ یہاں کے عوام کل وقتی ٹیکسز نہیں دیں گے بلکہ جب تک ان کو مکمل طور پر صوبائی میگاپراجیکٹ اور دوسری بڑی مراعات نہیں ملتیں اور ان کی زندگی میں خاطر خوا ہ تبدیلی نہیں لائی جاتی، اس وقت تک ان پر ٹیکس لاگو نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہی علاقے پسماندگی میں پاکستان میں انضمام سے پہلے والی صورتحال سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ جو سہولیات انضمام سے پہلے اس وقت چھوٹی ریاستوں میں لوگوں کو میسر تھیں، وہی سہولیات اب وفاق اور صوبائی حکومت نہیں ڈلیور کر پا رہی۔ اس لیے جب پچھلی حکومت نے انکم ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا، تو عوام کا غصہ دیدنی تھا۔ تاجر برادری اور مختلف تنظیموں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں نے بھرپور احتجاج کیا، جس پر مجبوراً حکومت کوانکم ٹیکس کا نوٹیفیکیشن واپس لینا پڑا ۔
دوسری طرف فاٹا کو پاٹا کے عوام، قبائلی جرگے اور سینٹ کمیٹی کی رپورٹ کے بغیر ہی مذکورہ علاقوں کے ساتھ ان کی آئینی اور خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا، جس سے پاٹا کے ساتھ ساتھ فاٹا میں بھی قوانین کے نفاذ کا مسئلہ پیدا ہوگیا، جو تاحال موجود ہے۔ اس میں سرِفہرست، نظامِ عدل اور ان ایڈ آف سول پاؤر ریگولیشن اور مجسٹریسی نظام ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ ’’بل‘‘ کے پاس ہونے پر بھی یہ مسائل ایسے ہی موجود رہیں گے۔
سینٹ کی جس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی، اس میں پاٹا کے حوالے سے اس قسم کی کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی تھی۔ نہ یہاں کے عوام اور قبائلی جرگہ کی رائے ہی لی گئی تھی۔اس سب سے بالا غیر آئینی طور پر فاٹا کے ساتھ پاٹا کو بھی ختم کیا گیا۔ 1935 انڈیا ایکٹ، انڈپنڈنس ایکٹ اور 1956 کے آئین کے جملہ امور کو نظرانداز کیا گیا۔ 1948میں جو ریفرنڈم سرحد میں ہوا تھا، اس میں پاٹا کے بیشتر علاقے شامل نہیں تھے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوا جب مذکورہ آرٹیکل سے تمام مروجہ ریگولیشن ختم ہوئے۔ ایگزیکٹو مجسٹریسی جو کہ اب تک غیر قانونی و غیر آئینی طور پر اپنے اختیارات استعمال کر رہی ہے، مذکورہ ترامیم سے سیکنڈ اور تھرڈ کلاس مجسٹریٹوں کے اختیارات ختم ہوگئے ہیں، تاہم وہ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ مذکورہ ترامیم سے ان کے اختیارات ختم ہوگئے ہیں، لیکن نہ جانے کون سے ادارے اور حکومتی قانون کے ذریعے سے تاحال وہی امتیازی قانون اب تک نافذ العمل ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مذکورہ قانون کی رو سے مجسٹریٹ خود پرچہ بھی کرواتا ہے اور خود مقدمہ بھی سنتا ہے؟ کوئی کس طرح خود اپنے خلاف مقدمے میں جج بن سکتا ہے؟
مذکورہ آرٹیکل کے ختم ہوتے ہی مختلف اداروں نے پاٹا میں عوام اور کاروباری افراد پر یورش کر دی ہے۔ ہر ایک ادارہ اپنا لائسنس لینے پر زور دیتا ہے جب کہ اس قسم کے کاموں کا لائسنس پہلے ہی سے لیا گیا ہوتا ہے۔ ایک ہی کام کے لیے دو دو قسم کے لائسنس اور جرمانے، شاباشے! یہ ہوتا ہے انصاف اور یہ کہلاتا ہے قانون!
حال ہی میں اب حکومت، مذکورہ ترامیم کے توسط سے ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسز لگانے کا عندیہ دے چکی تھی، جس کو واپس لیا جاچکا ہے۔ اس عمل سے اس علاقے کے عوام میں مزید نفرت اور غصہ پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اس لیے حکومت ہوش سے کام لے۔ یہاں پہلے سے جاری طالبانی شورش، طوفان، سیلاب اور زلزلہ کے بعد اس قسم کے اقدامات صوبائی و وفاقی حکومت سے دوری کا سبب ہوں گے۔ چوں کہ ملاکنڈڈویژن اور خصوصاً سوات میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور سوات سے وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوچکا ہے، اس لیے اس کو اپنے علاقے اور فاٹا کے عوام پر رحم کرنا چاہیے اور اس قانونی خلا کو پُر کرنے کے لیے فوری کوشش کرنی چاہیے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔