کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے سمت کے تعین کی ضرورت ہوتی ہے۔ درست سمت جب تک نہ ہو، تو اُس وقت تک مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے نئے برس میں عوام کے سامنے پھر ایک خوب صورت خواہش کا عزم ظاہر کیا کہ وہ غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف جہاد کرے گی۔ یہ مسئلے کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ قوم تو سات دہائیوں سے اس قسم کے کھوکھلے بیانات اور تقاریر کے ہاتھوں سنہری مستقبل کی تلاش میں ہے، لیکن اُسے صرف دلاسے، آسرے، امیدیں اور بلند بانگ دعوے ہی ملے۔ حقیقت کی دنیا میں کوئی آنے کو تیار نہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ تحریک انصاف حکومت ابھی تک اپنے اہم اہداف میں ناکام ہے۔ گذشتہ چھے ماہ میں ایف بی آر کا شاٹ فال 174 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت ریونیو کے اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ خود حکومتی ترجمان برائے معاشی امور ’’فرخ سلیم‘‘ نے اعتراف کیا ہے کہ 30 فیصد تک روپے کی قدر گرانے کے باوجود برآمدات نہیں بڑھ سکیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’ہم بیماری کا علاج نہیں کر رہے بلکہ علامات کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
فرخ سلیم کا بیان آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ حکومت کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے اور اب نئی حکمت عملی پر سوچنا ہوگا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عوام کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ مہنگائی کا سونامی غریبوں کو بہاکر لے گیا اور اب جو کچھ ہوگا، خدشہ ہے کہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔
آئندہ ایام عوام کے لیے نئی آزمائشوں اور تلخ ترین دور بن کر سامنے آنے والے ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اُن کو باور کرایا جا چکا ہے کہ یہ سب سابق حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا، لیکن اب ان توجیہات کی تکرار سے عوام کو زیادہ دیر تک دھوکے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے جس طریقۂ کار کو اختیار کیا گیا تھا، اسی زعم میں سندھ حکومت کو گرانے اور پھر وزیراعلیٰ سندھ کی تبدیلی کی مہم جوئی نے واضح کر دیا کہ وفاقی حکومت عوام کو نت نئے ایشوز میں الجھاکر اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ جے آئی ٹی اور حکومتی پھرتیوں پر عدالتِ عظمیٰ نے سخت ترین تنبیہ جاری کی، جس سے تحریک انصاف کی مہم جوئی کے غبارے سے ہوا نکل تو گئی، لیکن اب بھی چند اراکینِ اسمبلی معاملے کو سرد کرنے پر تیار نہیں۔
حکومت کو اپنی ترجیحات میں یکسو رہنے اور درست سمت میں چلنے کے مشورے کئی بار دانشوروں اور غیر جانب دار حلقوں کی جانب سے دیے جاچکے ہیں کہ احتساب ایک قانونی مرحلہ ہے، جہاں بے قاعدگی اور بدعنوانی دیکھیں، آئین کے مطابق عمل کریں۔ قوم سے جو وعدے کیے گئے ہیں، انہیں پورا کرنے کے لیے اپنی قوت صَرف کریں۔ آپ کو ریاست کے تمام اداروں کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور وزیراعظم خود اقرار کرچکے ہیں کہ تمام ریاستی ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ اس بھرپور موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے گنوانے کے لیے کس ایجنڈے کے تحت کام کیا جا رہا ہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
یہ تو سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تخت لاہور و اسلام آباد کے پائے مضبوط نہیں اور کمزور سہاروں پر ٹکے ہیں، ہلکے سے جھٹکے سے تخت ’’تختہ‘‘ ہوسکتا ہے، تو اس صورت میں جس قسم کی مہم جوئی میں عجلت برتی گئی، وہ سیاسی ناپختگی کا واضح اشارہ کرتی ہے۔ سیاسی بلوغت کے لیے تدبر، برداشت اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
حقیقت کی عینک لگا کر اگر صورتحال کا اجمالی جائزہ لیں، تو حکومت کے ہی الفاظ ہیں کہ اپوزیشن پر کیس انہوں نے نہیں بنائے، تو پھر ایسے میں تمام تر ’’کریڈٹ‘‘ اداروں کو جاتا ہے۔ حکومت کا اس میں کون سا کمال ہے؟ کرپشن، منی لانڈرنگ، جعلی بینک اکاؤنٹس سمیت جتنے بھی اہم ایشوز پر کارروائیاں ہو رہی ہیں، تو اس میں حکومت نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اس کی ستائش کی جائے؟
اس طرح دوسری طرف دیکھا جائے، تو کم ازکم ایسا نظر نہیں آرہا کہ موجودہ نظام، استحکام کی جانب گام زن ہے۔ بلکہ موجودہ نظام سے مایوس کرانے کا یہ عمل بھی سوچا سمجھا منصوبہ لگتا ہے۔
حکومت اس وقت بھی معاشی لحاظ سے دگرگوں صورت حال سے دوچار ہے۔ دوست ممالک سے وقفے وقفے سے ملنے والی امداد مستقل حل نہیں۔ حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہے۔ ’’کراچی چیمبر آف کامرس انڈسٹری‘‘ کے بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم نے دورۂ کراچی کے دوران میں جتنے بھی وعدے کیے تھے، ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جہاں ملک کی تاجر برادری کو مشکلات درپیش ہوں، صنعتیں بند ہوں، چھوٹے بڑے تاجروں کو حکومتی ریلیف نہ مل رہا ہو، تو سرمایہ کاروں کا اعتماد کیسے بحال ہوگا اور بیمار و مردہ صنعت کو کیسے زندہ کیا جائے گا؟ حکومت کی ناقابل فہم پالیسیوں کی وجہ سے صنعت بحران کا شکار ہے اور صنعتوں کی تین شفٹیں، اب ایک شفٹ پر چل رہی ہیں۔ بڑے بڑے پیداواری یونٹ بند ہورہے ہیں۔
دوسری طرف مزدور طبقہ جو پہلے ’’ڈیلی ویجز‘‘ جیسے کالے قانون کی وجہ سے پسا ہوا ہے، انہیں فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے اجرت میں کٹوتی کا سامنا ہے۔ جس ملک میں وقت پر ’’آرڈر‘‘ کے مطابق ’’شپمنٹ‘‘ تیار نہ ہوتی ہو، اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکامی اور بیرونِ ملک مصنوعات کی مارکیٹوں میں باافراط فراوانی سے جہاں ملکی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے، تو وہاں دوسری جانب حکومت ’’ریونیو‘‘ سے بھی محروم ہو رہی ہے۔ نئی تجارتی منڈیوں تک رسائی نظر نہیں آرہی۔
قارئین، تحریک انصاف ابھی تک اہم اہداف کے حصول میں مشکلات سے باہر نہیں آسکی۔ اس پر وفاق اور صوبے کے درمیان محاذ آرائی مستقبل میں ماضی کا منظر پیش کرسکتی ہے کہ وفاق سے اگر وزیراعظم آئے، تو صوبۂ سندھ سے اس کے استقبال کے لیے کوئی نہ آئے۔ وزیراعظم عمران خان کو ملک کی سیاسی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ جب محاذ آرائی کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، تو اس کے نتائج بھی اچھے نہیں نکلتے۔ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں۔ اس لیے کب، کون، کس طرح ’’وسیع تر مفاد‘‘ کا سہارا لے لے، اس متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اربابِ اختیار قوم کی توجہ اہم ایشوز سے ہٹانے کی کوششیں ترک کردیں۔ حکومتی رویے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں میں قربتیں بڑھ رہی ہیں، جس کا انجام آئین کے تحت اِن ہاؤس صرف سندھ میں نہیں بلکہ سینیٹ، وفاق اور پنجاب میں تبدیلی پر منتج ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو جو ’’مینڈیٹ‘‘ دیا گیا ہے، اس پر حکومت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرے۔ غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ صرف مضبوط معیشت سے ہی ممکن ہے۔ کمزور اقتصادی صورتِ حال مسلسل غربت، جہالت، ناانصافی اور بدعنوانی کو مزید مضبوط کررہی ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمزور معیشت دراصل بدامنی کی ’’کلیدی وجہ‘‘ بنتی ہے، جس کے بطن سے غربت اور جہالت جنم لیتی ہے، ساتھ ناانصافی اور بدعنوانی پروان چڑھتی ہے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔