پاکستان کی دیہاتی زندگی پاکستان بھر میں ایک جیسی ہے۔ چاہے سندھ ہو، بلوچستان ہو یا پختونخوا اور پنجاب، سب جگہ ایک ہی ماحول ہے۔ دیہاتی آبادی 70 فیصد تک ہے۔ ان کا روزگار کیا ہے؟ اس آبادی کا زیادہ تر براہِ راست ذریعۂ معاش زراعت ہے۔ زمینوں سے کچھ ملے، تو زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔ زمینوں کا ذکر ہو، تو پہلی چیز جو ہمارے ذہن میں آتی ہے، وہ ہے اناج یا سبزیاں۔ اناج اور سبزیوں کے بعد باغات ہیں۔ مثلاً ’’مالٹے کے باغات، امرود کے باغات، کیلوں کے باغات وغیرہ وغیرہ۔ یہ ’’ڈائرکٹ پراڈکٹس‘‘ ہیں جن سے دیہاتی زندگی رواں دواں ہے۔ کچھ چیزیں ضمنی طور پر ان زمینوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ان پر درخت اُگتے ہیں جن کی قیمت لاکھوں روپیہ ہوتی ہے۔ زمین داروں کو جب ضرورت ہو یا تنگی ہو، تو باامرِ مجبوری درختوں کو فروخت کرکے کماتے ہیں۔ اگرچہ درختوں کا کاٹنا ماحول کے لیے نقصان دِہ ہے، لیکن ریاستی سرپرستی نہ ہو، تو وہ کہاں جائیں اور کیا کریں؟ تمام دیہاتی ماحول میں مرغیاں پالنا، مویشی پالنا ان کے گذر بسر کے لیے گویا ایک نعمت ہے۔ مرغیاں انڈے دیں۔ ان انڈوں کو بیچا جاتا ہے یا ان سے مزید چوزے جنم لیتے ہیں۔ پھر اُن چوزوں کو بڑا کرکے بیچا جاتا ہے۔ اسی طرح گائے، بھینس اور بھیڑ بکریاں بھی پالی جاتی ہیں۔ مرغیوں سے، انڈوں سے یا گائے بھینس سے ایک کسان یا زمین دار کو کیا ملتا ہے؟ یہ اس سے پوچھئے۔ اللہ نے ان چیزوں میں برکت ڈال رکھی ہے۔ ان سے حاصل ہونے والا سرمایہ بہت کم ہوتا ہے، لیکن کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہی ہوتا ہے۔ دیہات میں رہنے والوں کا زیادہ انحصار ان چیزوں پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی کلاس فور ملازمت کرتا ہے، کوئی ٹیچر بن جاتا ہے، کوئی کلرک، کوئی پولیس یا فوج میں ملازمت اختیار کر لیتا ہے۔ زیادہ تر نوکریاں ایسی ہیں جن میں اگر حلال کا خیال رکھا جائے، تو انسان وہی کے وہی رہ جاتا ہے، جو لوگ بڑے آفیسر بن جاتے ہیں، سول سرونٹس یا بڑے ٹیکنوکریٹ، ان کا دیہاتی زندگی سے تعلق تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ وہ شہر کا رُخ کر لیتے ہیں، اپنے آپ کو کسی ہائی فائی ماحول میں جما لیتے ہیں۔ صرف غمی خوشی میں گاؤں کا رُخ کر لیتے ہیں، لیکن زیادہ تر وقت سٹی کے پوش ماحول میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دیہاتی آبادی میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیرون ملک محنت مزدوری کے لیے نکل جاتے ہیں، وہاں سے جتنا کما کر لاتے ہیں۔ گاؤں میں چھوٹا موٹا گھر یا زمین لے کر زندگی گزارتے ہیں، یا پھر قصبے یا قریبی شہر میں چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرلیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ معمولی دکانیں ہی چلاتے ہیں۔
قارئین، آج احسن اقبال کا بیان دیکھا کہ ’’دنیا فورتھ انڈسٹریل ریولوشن‘‘ سے گزر رہی ہے اور ہم انڈوں اور چوزوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس نالائق انسان کو کوئی بتائے کہ آپ کے لیڈر نے کئی دفعہ اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایسے پروگرامات منعقد کیے ہیں جن میں دیہاتی خواتین کو بھینسیں خریدنے کے لیے پیسے دِیے گئے ہیں۔ اس وقت آپ نے اہم وزیر کے ہوتے ہوئے کیوں نہیں روکا کہ ’’جناب، دنیا خلاؤں میں چل بسی اور آپ بھینسوں کی بات کر رہے ہیں۔‘‘ آپ نے اپنے لیڈر نواز شریف کے بھائی اور بھتیجے کو کیوں نہیں روکا کہ اس قدر امیر ہونے کے باجود تم لوگ چوزوں اور مرغیوں کے کاروبار میں سرمایہ لگا رہے ہو۔ کوئی ’’سوفسٹیکیٹڈ انڈسٹری‘‘ کیوں نہیں لگاتے؟ رائیونڈ میں حیدر آباددکن اور بنگلور کی طرح سیلیکان سٹی بنوانے کی طرف مجبور کیوں نہیں کیا؟ تم لوگوں نے خود اپنی تین بار وفاقی حکومت میں ایسا کیوں نہیں کیا؟
عمران خان نے جو کچھ کہا وہ ’’مائکرو اکانومی‘‘ ہے ۔یہ کسی بھی معیشت کو اٹھانے کا نکتۂ آغاز ہے۔ امیر ممالک میں بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے۔ پھر جب وہ بڑا ہوتا ہے اور 18 سال کی عمر عبور کر لیتا ہے، تو وہ اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکال سکتا ہے اور اپنے اوپر خرچ کر سکتا ہے۔ ذرا سوچئے اس بچے کی جوانی میں پھر اپنے ملک کے بارے میں کس قدر اچھے احساسات ہوں گے جو اس کا اتنا خیال رکھتا ہو۔ یہی ہمارے دیہاتی ماحول میں ہو رہا ہے۔ اس کی طرف ہماری توجہ کبھی گئی ہی نہیں۔ ہمارے دیہاتی ماحول میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے، تو گھر کے بڑوں میں کوئی بکری اس کے نام کر لیتا ہے، کوئی مرغی، کوئی گائے، یہ بھی اکاؤنٹ کی طرح ہے۔ امیر ممالک میں ریاست یہ کام کرتی ہے جب کہ غریب ماحول میں گھر کے افراد۔ پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے، تو یہی مرغی، بکری یا گائے وغیرہ اس کے کام آتی ہے، چاہے ذکر شدہ مال مویشی سے اسے دودھ ملے یا اس کو بیچ کر وہ اپنے لیے سائیکل یا موٹر سائیکل خرید لے، اسے احساس تو ہوگا کہ یہ احسان اور پیار کس کا تھا؟ یہ ’’مائیکرو اکانومی‘‘ ہے جس کے اقتصادی فائدوں سے زیادہ سوشل فائدے ہیں، لیکن ’’نادار مغرور‘‘ ان چیزوں کو کب سمجھیں گے؟ ’’’’میکرو اکانومی‘‘ سے زیادہ اہم ’’مائیکرو اکانومی‘‘ ہے۔ جس ملک کی معیشت میں سب کو انوالو کیا جائے، ان سے زیادہ فوائد اور دیرپا فوائد ملتے ہیں۔ کارخانے ہر جگہ نہیں لگ سکتے، نہ تمام آبادی کو شہروں کی طرف منتقل ہی کیا جا سکتا ہے۔ دستیاب وسائل سے فائدہ اٹھانا ہی جدید سائنس، جدید معاشی recommendations ہیں،لیکن افسوس کہ ’’نادار مغرور‘‘ ان چیزوں کو نہیں سمجھتے ۔
ِ انگلستان میں پچھلے سالوں میں پولٹری بزنس نے جتنی ترقی کی ہے، وہ ہم سوچ نہیں سکتے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر یہی بزنس مائنڈ ہم دیہاتوں میں مقیم آبادی کا بنا دیں، تو ملک کو کتنا فائدہ ہوگا؟ ڈائرکٹ اور اِن ڈائرکٹ روزگار کے کتنے مواقع ملیں گے ۔ 2006ء میں بنگلہ دیش کے ایک سکالر محمد یونس کو مائیکرو کریڈٹ اور مائیکرو اکانومی پر بہترین کام اور تحقیق کی وجہ سے نوبل انعام ملا، جب کہ پاکستان میں ’’نادار مغرور‘‘ ان چیزوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنی پہلی، دوسری اور تیسری تقریر جو جی ایچ کیو میں ہوئی تھی، کہا تھا کہ ریاست کے غریب طبقات کا خیال رکھا جائے۔ یہی ریاستِ مدینہ ہے۔ احساس سے معاشرے اٹھتے ہیں۔
مَیں’’نادار مغروروں‘‘ سے کہتا ہوں کہ مرغی کے انڈے دینا یا ان کے چوزوں کو ٹیکے لگوانا عمران خان کا وہ اقدام ہے جو احساس کو جگا رہا ہے۔ احساس، وسائل سے زیادہ قیمتی ہے۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔