وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے یکے بعد دیگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ پاکستان مخالف ٹیویٹس کے جواب میں دیے گئے بیانات نے یہ تاثر زائل کردیا کہ کوئی بیرونی قوت سول ملٹری لیڈرشپ میں خلیج پیدا کرکے اپنے مفادات حاصل کرسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ تعلقات حالیہ برسوں میں کئی ایک نشیب وفرازسے گزرے ہیں، لیکن صدر ٹرمپ برسرِاقتدار آنے کے بعد سے پاکستان کو مسلسل آنکھیں دکھاتے اور لتاڑتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی الیکشن مہم اور بعدازاں منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد مسلسل پاکستان کو اس خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ چند دن قبل انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان نے بھاری مالی امداد سمیٹنے کے باوجود ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ بعدازاں محکمۂ دفاع جسے ’’پنٹاگون‘‘ کہا جاتا ہے کی طرف سے صدر ٹرمپ کی ایما پر پاکستان کو 1.66 بلین امریکی ڈالر کی سیکورٹی امداد معطل کر دی گئی۔
گذشتہ برس انہوں نے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جہادی گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جو جلد نتائج حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ افغانستان ’’سپر پاؤرز‘‘ کا قبرستان کہلاتاہے۔ برطانیہ اور سویت یونین جیسی عالمی طاقتیں اپنی مرضی سے داخل ہوئیں، لیکن نکلی بے نیل و مرام اور اپنے وطن کو واپس لوٹیں۔ ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا وعدہ بھی کرچکے ہیں۔ عام الیکشن سر پر کھڑا ہے۔ امریکی شہریوں کو اپنی کامیابیوں کے سحر میں اتارنے کے لیے ٹرمپ کے نامۂ اعمال میں کچھ خاص نہیں، جو وہ الیکشن مہم کے دوران میں رائے عامہ کے سامنے پیش کرسکیں۔
ماضی میں صدر ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا اور یاد دلایا کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے۔ انہیں یاد دلایاگیا کہ وہ پاکستان کا ذکر احترام اور احتیاط سے کرنے کی عادت اپنائیں۔
پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے کام جاری رکھے گا، لیکن اپنے مفادات پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں منتخب حکومت کی آواز میں اپنی آواز شامل کی اور کہا: ’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے لڑی ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا کردارجاری رہے گا۔‘‘
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ پاکستان کا وقار اورسلامتی ہمیشہ اولین ترجیح رہے گی۔ سول ملٹری لیڈر شپ کے اس اتحاد نے امریکہ کو واضح پیغام دیا کہ ملکی وقار اور سلامتی کے لیے پاکستانی قوم ایک صفحے پرہے۔علاوہ ازیں وہ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام میں تعاون کے لیے تیار ہے، لیکن دباؤ اور دھونس قبول کرنے کو تیار نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے سفارتی، سیاسی اور معاشی دباؤ کا ہر حربہ آزمایا لیکن کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا۔ پاکستان ایک سخت جان ریاست ثابت ہوا جو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آنے والے اتارچڑھاؤ سے گھبراتا نہیں بلکہ مضبوط اعصاب کا مظاہر ہ کرتاہے ۔
المیہ یہ ہے کہ امریکی ستّر برسوں تک گہرے حلیف رہنے کے باوجود پاکستانی ریاست اور عوام کی نفسیات کا ادراک نہیں کر پائے۔ پاکستان سے تعاون کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ علاقائی تنازعا ت کے حل میں اسلام آباد کی مدد کی جائے۔ خاص طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی مدد ایک ایسا راستہ ہے جو دونوں ممالک کو ایک صفحہ پر لاسکتا ہے۔
دوطرفہ تعاون کی راہیں کشادہ کرکے خطے میں امن کے قیام کا خواب پورا کرسکتا ہے۔حالیہ برسوں میں امریکیوں نے پاکستان کے مسائل کم کرنے اور اسے سہولتیں فراہم کرنے کے برعکس انہیں چٹکی کاٹنے اور اس کا م کو ٹھپنے میں زیادہ دلچسپی لی۔ پاکستان کو ملنے والی مالی امداد اور سیکورٹی تعاون ایک ایسا فریم ورک فراہم کرتا تھا، جو دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کا ذریعہ تھا ۔
بدقسمتی سے امریکی صدر کے جذباتی فیصلوں نے پہلے سے ڈانواں ڈول تعلقات کے اس بوجھ کو بھی اتار پھینکا۔اب رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے بہت پہلے پاکستان میں ڈرون حملوں اور امریکہ کے ساتھ غیر مساویانہ تعلقات کے سخت ناقد تھے۔ وہ پرویز مشرف کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ ایک مرتبہ تو پورا جلوس لے کر قبائلی علاقہ جات گئے، تاکہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرسکیں۔
انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے ایک سخت گیر مخالف کے طورپر منظم کیا۔ رائے عامہ میں انہیں جو بے پناہ پذیرائی ملی، اس کا ایک سبب ان کا کھل کر پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری دفاعی تعاون پر نکتہ چینی کرنا بھی تھا۔
صدر ٹرمپ نے عمران خان کو ایک سنہری موقع فراہم کیا کہ وہ ایک بار پھر اپنا بہادر اور محب وطن پاکستانی لیڈر کا تاثر گہرا کرسکیں۔ پاکستانی انہیں دیانت دار لیڈر کے طور پر پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں، جس طر ح انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ٹرمپ کو کرارا جواب دیا، اس نے وزیراعظم عمران خان کی عوامی حمایت میں کئی گنااضافہ کردیا ہے ۔
امریکہ پاکستان کے ساتھ ایک نفسیاتی اور اعصابی جنگ لڑرہاہے۔ وہ افغانستان کی دلدل میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ بتدریج روس، ایران اور چین جیسے ہمسائیہ ممالک بھی افغانستان میں ایک اسٹیک ہولڈر کے طورپر ابھرے ہیں۔ جو نہ صرف طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ ان کے سیاسی کردار کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے بھی امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کی کوششوں کی صرف حمایت ہی نہیں کی بلکہ اہم افغان طالبان کو رہا بھی کیا۔ امریکہ کو پاکستان کے تعاون پر شکرگزار ہونا چاہیے نہ کہ وہ دھمکی آمیز لب ولہجہ اختیار کرے۔
پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات بگاڑنے نہیں بلکہ سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اسے یہ احساس ضرور دلانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان کی حمایت اور تعاون کے بغیر وہ افغانستان میں مذاکراتی عمل جاری رکھ پائے گا اور نہ کبھی فوجی انخلا کرسکے گا۔
مختصر یہ کہ ’’امریکیوں سے لڑو نہ ڈرو۔‘‘

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔