1978ء میں تعمیر کیے گئے سیدوشریف ائیر پورٹ کو 2007ء میں شورش کے باعث بند کیا گیا۔ بندش سے قبل روزانہ پشاور اور اسلام آباد کے لیے دو پروازیں اڑان بھرتی تھیں۔ ڈھیرئی اور کانجو کے بیچ میں واقع سیدو شریف ائیرپورٹ کو مقامی لوگ کانجو ائیرپورٹ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ بہت سارے سیاح اور تاجربرادری ملک کے دوسرے حصوں سے تجارت اور سیر و تفریح کی غرض سے اس جنت نظیر وادی کی طرف رُخ کرتی۔ سیدو شریف ائیر پورٹ کی بندش سے نہ صرف سیاح اور تاجر بلکہ مقامی شہری بھی ہوائی سفر کی سہولت سے محروم ہوچکے ہیں۔ پھر جب آرمی نے یہاں ٹیک اوور کیا، تو ائیرپورٹ کے تمام عملہ کو واپس پشاور ائیرپورٹ منتقل کیا گیا ۔
قارئین، سوات کو اللہ تعالیٰ نے حسن کی رعنائیوں سے نوازا ہے۔ سوات زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ فلک بوس پہاڑ، سرسبز وشاداب لہلاتے کھیت، برف پوش چوٹیاں، اونچائی سے گرتی آبشاریں، شور مچاتے دریا، سحر انگیز جھیلیں، جھرنے اور مستی کے نغمے گاتے چہچہاتے پرندے، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی صحت بخش آب و ہوا، انواع و اقسام کی سبزیوں اور پھلوں کے باغات، خوبصورت نظاروں اور قدرتی حسن سے مالا مال یہ وادی گویا ریاستِ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے، مگر پتا نہیں سوات کے حسن کو کس کی نظرِ بد لگ گئی کہ یک دم حالات نے کروٹ لی اور یہاں قتل و غارت اور دہشت گردی نے فضا کو سوگورا بنا دیا۔ سوات کے لوگوں کا شمار دنیا کے پُرامن ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہاں مٹھی بھر شرپسند عناصر کو مضبوط کیا گیا، حالات خراب کیے گئے اور وادی کو جنگ کا میدان بنایا گیا۔ لاکھوں لوگ ضلع بدر کیے گئے اور ہزاروں لوگوں کے گھر اجاڑ دیے گئے۔ پُرامن وادی کو مقتل گاہ بنا دیا گیا۔ یہاں کی پُرسکون اور حسین شاموں کو خون آشام بنا دیا گیا۔ یہاں کے چوراہے مذبح خانوں میں تبدیل کردیے گئے۔ چہار سو خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ سرِشام یہاں موت رقص کرنے لگی۔ خوش گفتار، خوش اخلاق، علم دوست، مہمان نواز سوات کے شہری اس طرح کے حالات سے یکسر ناواقف تھے۔ امداد کے نام پر یہاں کے مہذب اور معزز شہریوں کو بھکاری بنانے پر مجبور کیا گیا۔ ناکوں پر تلاشی کے بہانے اہلِ سوات کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا، کس لیے ہوا؟ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کے بعد عوام نے سکھ کا سانس ابھی لیا ہی تھا کہ قدرت نے سوات کو ایک اور آزمائش میں ڈال دیا۔ جولائی 2010ء میں یہاں تاریخ کے بدترین سیلاب نے تباہی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے حکمرانوں نے دجالی قوتوں سے سازباز کرکے یہاں ’’ہارپ ٹیکنالوجی‘‘ کو بھی آزما لیا۔ "HAARP” دجالی قوتوں کی ایک ایسی ایجاد ہے، جو موسموں میں تبدیلی پیدا کرتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی جنگوں میں بطورِ ہتھیار استعمال ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے، نہ اُن بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سوات میں کبھی کسی سیلاب نے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہو۔ اس وقت بادلوں سے بارش کے قطرے نہیں گویا سیلابی ریلا بہہ رہا تھا۔ جہاں آسمانی بجلی گرتی، وہاں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے اور سامنے موجود ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیتے۔ رابطہ پل، سڑکیں، اسپتال، گھر، ہوٹلز، باغات، گرِڈ سٹیشن اور سیکڑوں ایکڑ قیمتی اراضی سیلاب کے بے رحم موجوں کی نذر ہوئی۔ زمین کو وجود میں آنے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ آسمانی بجلی بغیر گرج دار آواز کے گری ہو، اور پہاڑوں پر نشانات چھوڑے ہوں، لیکن آج بھی 2010ء میں پہاڑوں پر آسمانی بجلی گرنے کے نشانات دور دور سے نظر آتے ہیں۔ آتے جاتے ہر کوئی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس وقت معائنہ و مشاہدہ کرنے کے لیے امریکی مرین نے سوات آنے کی بہت کوشش کی تھی، مگر اسے اجازت نہیں ملی تھی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن یادداشت تازہ کرنا مقصود ہے کہ سوات نے کیا کیا عذاب جھیلے ہیں۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر تلاش کرنے سے بھی بربادی پھیلانے والا تاریخ کا یہ بدترین سیلاب کسی صفحہ پر نہیں ملے گا۔ تباہی کے وہ آثار اب بھی موجود ہیں۔ تباہی کے بعد پچاس ارب روپے کی حکومتی امداد کہاں گئی اور کس کس کو ملی، یہ بھی ایک الگ داستان ہے!
پاکستان کی سالمیت اور بقا کی خاطر پختون قوم نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ پاکستان کے تحفظ میں ہزاروں معصوم پختونوں کا خون بھی شامل ہے۔ اگرچہ اس خون کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا، لیکن یہاں کی ترقی و خوشحالی میں حائل رکاوٹوں کو ضرور دور کیا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2016ء میں ایم این اے مسرت احمد زیب نے ایک قرارداد کے ذریعے سیدوشریف ائیرپورٹ کا نام تبدیل کرکے ’’میجر جنرل ثنا اللہ خان نیازی ائیرپورٹ‘‘ رکھنے کی تجویز پیش کی، جسے سوات کے عوام نے رَد کیا اور پرانا نام جو کہ تاریخی وابستگی رکھتا ہے، بحال کرنے پر زور دیا۔ 10 اکتوبر 2012ء میں جب یہاں پی آئی اے کا فوکر طیارہ اترا، تو سیاحت سے جڑے افراد، تاجر برادری اور مقامی عوام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، لیکن افسوس کہ وہ بھی آخری پرواز ثابت ہوئی۔ روزانہ ہزاروں تاجر، سیاح اور بیرونِ ملک مقیم مسافر روڈ کے ذریعے سفر کرنے پر مجبور ہیں، جس سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ سوات ایک ایسا ذرخیز ضلع ہے کہ یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر مختلف پھلوں اور سبزیوں کو ملک کی دور دراز منڈیوں تک پہنچانے کے لیے کارگو بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ جولائی 2012ء ہی میں سی اے اے کے پبلک رلیشن آفیسر نے کہا تھا کہ ائیرپورٹ تیار ہے اور جلد فلائٹ شیڈول فراہم کیا جائے گا، جب کہ منیجنگ ڈائریکٹر جنید یونس نے یہاں سے 28 اکتوبر سے ہفتہ میں دو فلائٹس اسلام آباد کے لیے آپریٹ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ PTDC کے منیجنگ ڈائریکٹر چوہدری عبدالغفور نے تو مارچ 2014ء میں ہی کہا تھا کہ سوات میں سیاحت کے فروغ اور وادی میں سیاحوں کی بہتات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی آئی اے فلائٹ بحال کرے گا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔
سوات سمیت خیبر پختونخواہ کے عوام نے دوبارہ پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کرکے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے۔ مرکز میں بھی اب پی ٹی آئی برسرِاقتدار ہے اور یہ بہانہ بھی اب نہیں رہا کہ مرکز میں ان کی حکومت نہیں۔ تمام اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان جن کا تعلق خود سوات سے ہی ہے اور وزیرِ سیاحت سے سوات کے عوام کا پُرزور مطالبہ ہے کہ وہ سیدوشریف ائیرپورٹ کو مستقل بنیادوں پر بحال کرنے کے لیے اقدامات کریں، سوات کی سیاحت کو فروغ دیں، سوات کو ماڈل ضلع بنائیں۔ سوات کے ’’خپل وزیرِاعلیٰ‘‘ اپنے تمام اختیارات بروئے کار لائیں اور سواتی عوام کا یہ دیرینہ مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کریں۔ اب تو ماشاء اللہ اختیارات بھی سول انتظامیہ کو سونپ دیے گئے ہیں۔ مسلسل آزمائشوں کے بعد شاید قدرت بھی سوات پر مہربان ہوگئی ہے، جس نے سوات سے تاریخ میں پہلی بار وزارتِ اعلیٰ کا قلم دان بھی عطا کیا۔ عوام کی نظریں وزیراعلیٰ صاحب پر جمی ہوئی ہیں۔ اگر ان کے دورِ حکومت میں بھی سیدو شریف سوات کا ائیرپورٹ بحال نہ ہوا، تو یہ ان کی سب سے بڑی ناکامی تصور ہوگی۔
قارئین کرام! آپ کا تعلق اگر سوات سے ہے، تو اس تحریر کو اپنے فیس بک وال، ٹویٹر اکاؤنٹ اور اپنے پیج پر شیئر کریں، تاکہ سوات کے لیے آپ کی آواز ایوان تک پہنچ سکے۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔