سیاست مجموعی مسائل حل کرنے کا نام ہے۔ یہ عوام کے جذبات سے قطعاًکھیلنے کا نام نہیں۔ معاملہ مگر یہاں برعکس ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے الیکشن، جلسے، جلوس اور مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ سیاست دا ن کو قومی یا واضح مینڈیٹ ان مذکورہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ موجودہ سیٹ اَپ میں اداروں کے ساتھ گفت و شنید کرکے سیاست دان پیشہ وارانہ خدمات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہماری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وسائل لگیں، تو لگنے دیں لیکن بہرحال کام اور ترقی کے اہداف سر کرنے چاہئیں۔ اس مد میں قناعت پسندی اور کفایت شعاری کی بجائے اسراف سے کام لیا جاتا ہے۔ ہم قانون ساز کو پارلیمنٹ میں اس لیے بھیجتے ہیں، تاکہ وہ حالات و واقعات اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے اصولوں کے مطابق قانون بنائیں۔ معاشی اور سماجی ناانصافی کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ تمام گروہوں میں ان کے علم و ستعدادِ کار کے مطابق پالیسی وضع کرے۔ پالیسی بھی وہی جو عوامی امنگوں اور مستقبل کے اہداف کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائے۔ اس سے قطعِ نظر کہ معاشی اور سماجی انصاف اور نا انصافی کیا ہوتی ہے؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قانون ساز، قانون سازی کی بجائے سڑکیں، پل، بجلی ٹرانسفارمر، گیس میٹر وغیرہ میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کی جائیں اور عوامی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جائے، لیکن ان سب کو چھوڑ کر فنڈز وغیرہ کو اپنا صواب دیدی حق مان کر مذکورہ بالا امور پر لگایا جاتا ہے۔ قرض پر قرض لے کر قوم کے اثاثے گروی رکھے جاتے ہیں۔ اس امر میں ادارے بھی برابر کے شریک ہیں، یہاں پر بھی کام الٹا ہوتا رہتا ہے اور پس ماندگی ہی ان کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ کیوں کہ پھر ان پر کام کا دوگنا بوجھ پڑتا ہے۔ اس طرح یہ صاحبان اداروں اوردفتروں میں ’’فائلیں فائلیں‘‘ کھیلتے رہتے ہیں اور مکھیاں مارنے کے لیے موجود رہتے ہیں۔ کام ہی ایسا ہے جو کہ وہ کسی طور پر کرنا نہیں چاہتے۔
ایک بات اور ، جب بھی ان کے آفیسرز کو دیکھو یہ صاحبان میٹنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ میٹنگ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ صبح و شام میٹنگ، یہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ میٹنگ کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن کام اور بائی پروڈکٹ بھی تو ہو!
قارئین، میرا ذاتی خیال ہے کہ اداروں کو چاہیے کہ وہ حکومت کو پالیسیاں وضع کرنے اور قانونی سقوم کو ختم کرنے کے لیے سفارشات بجھوائیں۔ ان سفارشات میں عدالتیں بہتر طور پر کام کرسکتی ہیں۔ یہی مذکورہ ادارے اسمبلی نمائندگان کواکثر اوقات بے کار کی تکنیکی وجوہات نکال کر اصل ترقیاتی کاموں کا راستہ روکتے ہیں۔ ٹھیکیداری، ٹینڈرز اور اشتہارات کی مد میں لاکھوں کروڑوں روپے سفری اخراجات، اوور ٹائم، مزدوری بونس میں ڈکار جاتے ہیں۔ ترقی تو ہونی نہیں لیکن صرف کمیشن اور اخراجات سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ اداروں میں بے جا طور پر بھرتیوں اور ٹرانسفر کرنے کیلئے نااہل ا ور بونے افراد کو داخل کرتے ہیں۔ وہ بھی ضرورت اورنااہلی کی آڑ لے کر۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔