پُرہجوم اور پُرشور زندگی سے بہت دور سوات کی وادئی گبرال کا ’’شاہی باغ‘‘ سیاحوں کو اپنے سرسبز ماحول، پائن اور بید کی مہک، تازہ ہوا، چہچہاتے پرندوں اور نیلے آسمان و جھرنوں کی بدولت منفرد تسکین فراہم کرتا ہے۔
بلند و بالا چوٹیوں میں واقع یہ مقام جسے ’’شاہی باغ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا زبردست سیاحتی مقام ہے جو کہ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اور کالام سے 30 کلو میٹر دور ہے۔
پشاور سے اپنے دوستوں کے ہمراہ اس جگہ کی سیر کے لیے آنے والے بلال خان نے اسے خوابوں کی وادی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ دیگر تمام پہاڑی مقامات سے مختلف ہے جس کی وجہ یہاں کے جنت نظیر مناظر ہیں، یہاں کے رنگ انتہائی نمایاں اور پُرکشش ہیں، یہ چھوٹا سا سرسبز جزیرہ پُرسکون دریا سے گھرا ہے، جہاں چہار سو پرندوں کی چہچہاہٹ ہے ۔‘‘
مینگورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ انہوں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ یہ وادی اتنی خوبصورت ہوگی۔ امجد علی سحابؔ نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے کہ کچھ مصوروں نے فطرت کی سب سے خوبصورت پینٹنگ کو پینٹ کیا، جس کے لیے شوخ رنگوں کو استعمال کیا گیا، ہر رنگ اتنا نمایاں اور پُرکشش ہے کہ ہر ایک کو لگتا ہے کہ یہ مصنوعی جنت ہے۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ کچھ مصوروں نے فطرت کی سب سے خوبصورت پینٹنگ کو پینٹ کیا، جس کے لیے شوخ رنگوں کو استعمال کیا گیا، ہر رنگ اتنا نمایاں اور پُرکشش ہے کہ ہر ایک کو لگتا ہے کہ یہ مصنوعی جنت ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

دیگر سیاحوں نے بھی اس باغ کو سوات کے کسی اور مقام کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ اندرونی سکون کے لیے مثالی ہے۔
ایک طالب علم عبدالباسط جو اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں سیر کے لیے آئے تھے، نے کہا کہ روزانہ گھنٹوں پڑھائی سے وہ ذہنی طور پر تھکاوٹ کا شکار ہوگئے تھے، مگر یہاں کی سیر نے دماغ اور ذہن کو تازہ کردیا: ’’یہاں کی ہوا تھکا دینے والے معمولات کے اثرات جھاڑنے کے لیے کافی ہے۔ ہر چیز سکون آور اور دنگ کردینے والے مناظر اردگرد موجود ہیں۔ بلاشبہ اس نے ہماری روحوں کو تازہ دم اور ہمیں ری چارج کردیا۔‘‘
کچھ سیاح دھیمی آواز میں گا رہے تھے جب کہ دیگر بلند آواز میں گلوکاری کا مظاہرہ کررہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس مقام کی خوبصورتی نے انہیں گانے پر مجبور کردیا۔
ایک سیاح حمزہ خان کے مطابق ’’پانی اتنا پُرسکون بہہ رہا ہے اور ماحول اتنا خوبصورت ہے کہ میرا دل گانے کو کرنے لگا اور میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے گانا شروع کردیا۔ حالاں کہ اپنی زندگی میں، مَیں نے کبھی گانے نہیں گائے۔ یہ جگہ ایسی ہے کہ میں یہاں بار بار آؤں گا۔‘‘

شاہی باغ کے راستے میں بکریوں کے ریوڑ کا ایک خوب صورت منظر۔ (فوٹو: فضل خالق)

سیاحوں کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مقام ہے جہاں ایک دن کی سیر سے دل ہی نہیں بھرتا، یہاں کے رنگ اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک رات کا قیام ضروری ہے۔
شاہی باغ کی سیر کرنے والے ایک اور سیاح اکرام خان نے کہا: ’’یہ کیمپنگ کے لیے بہترین ہے۔ کیوں کہ یہ چھوٹی وادی مختلف النوع سرور فراہم کرتی ہے۔ یہاں دن کی خوبصورتی مختلف اور کسی سے اس کا موازنہ ممکن نہیں جب کہ رات کی تاریکی کا اسرار بھی تفریح بخش ہے۔ میں قدرتی خوبصورتی کے دیوانوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس مقام پر ضرور آئیں اور رات کو قیام کریں۔‘‘
سیاحوں کا کہنا تھا کہ خدا نے پاکستان کو متعدد قدرتی عجائب سے نوازا ہے، مگر بیشتر مقامات تک مشکل اور خطرناک راستوں کی وجہ سے لوگوں کی رسائی ممکن نہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاح محمد مسعود کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو یہاں ضرور آنا چاہیے:
’’یہ جگہ سیر کے قابل ہے، مگر یہاں آنے والی سڑک خطرناک اور اتنی پتلی ہے کہ صرف جیپ یا فور ایکس فور گاڑیوں سے ہی یہاں پہنچنا ممکن ہے۔ میں حیران ہوں کہ آخر ہماری حکومت اچھی شاہراہیں اور بنیادی سہولیات سیاحوں کو کیوں فراہم نہیں کرتی۔‘‘
تاہم سیاحوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس خوبصورت مقام کو آلودہ نہ کریں، کیوں کہ یہاں آنے والے پلاسٹک بیگز اور کچرے کی بڑی مقدار ہر جگہ چھوڑ جاتے ہیں۔
اس طرح مقامی رہائشی محمد قاسم نے کہا کہ ’’شاہی باغ‘‘ سیاحوں کے لیے ماہِ جون کے وسط سے ماہِ اگست کے آخر یا ستمبر کے آغاز تک کھلا رہتا ہے:
’’ستمبر سے جون تک وادی برف سے ڈھکی رہتی ہے، یہاں رسائی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سڑک کی خراب حالت ہے جس پر مخصوص گاڑیاں ہی سفر کرسکتی ہیں۔‘‘

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔