حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
یہ گذشتہ سال کی بات ہے۔ میں اور میرے دوست ہر ایک ٹیسٹ کے لیے اپلائی کررہے تھے۔ کوئی ایسی اسامی نہ ہوگی جو پچھلے سال مشتہر ہوئی ہو اور ہم نے اس کے لیے اپلائی نہ کیا ہو۔ ہر روز ٹیسٹ اور ہر روز اپلائی۔ دوستوں نے بھی کافی مذاق بنالیا ہمارا۔ بلامبالغہ ہمارے ہزاروں روپے ان ٹیسٹس، پشاور، اسلام آباد اور لوکل ایریاز کے چکروں میں خرچ ہوئے۔ ہر ایک ٹیسٹ میں نمبر اچھے آئے، لیکن سلیکشن کا اول تو پتا ہی نہ چلا۔ اگر ایک عرصے بعد پتا چلا بھی، تو یہ کہ وہاں کچھ ایسے چہروں کو منتخب کیا گیا جو منظورِ نظر تھے۔ خیر، ہم میرٹ کی بالادستی کا بھاشن ایک دوسرے کو دے کر معاملہ اللہ تعالیٰ کے حضور چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ یہ بھی ایک دوسرے کو کہہ کر تسلی دیتے رہتے تھے کہ چلو شکر کسی اور غریب کا بھلا ہوگیا، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن ’’ایٹا‘‘ کے جونیئر کلرک ٹیسٹ میں تو حد ہی ہوگئی۔ اس ٹیسٹ نے تو ہمیں ہلاکر رکھ دیا۔
ہوا یوں کہ ٹیسٹ تو اچھا ہوا۔ نمبرز بھی اچھے آئے، اور ہمیں ٹائپنگ ٹیسٹ کے لیے بلایا بھی گیا، مگر وہاں عجیب صورتحال دیکھی۔ آپ کو یہ جان کے حیرت ہوگی کہ وہاں کوئی سافٹ وئیر نہیں تھا، جو نمبرات کو آن لائن کسی پورٹل پر منتقل کرکے کسی بھی دونمبری سے اس کی حفاظت کی جاتی۔ وہاں کے ذمہ دار لڑکوں کے ہاتھ میں رجسٹر تھے۔ اس رجسٹر میں آپ سے نام اور شناختی کارڈ نمبر پوچھ کر لکھا جارہاتھا۔ یقینا اس میں یہ احتمال بھی تھا کہ کوئی کسی اور کی جگہ ٹائپنگ کرتا، تو عملے کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اچھا چلو یہ اندراج تو اتنی بڑی بات نہیں، لیکن آگے سنیے، تین منٹ کا ٹیسٹ دے کر میرے نمبر آئے 30 میں سے 23۔ اب مجھے کہا گیا کہ جیسے ٹائم ختم ہو، تم نے سسٹم کو نہیں چھیڑنا، تا کہ ہم رجسٹر میں نمبر کا اندراج کریں۔ سو انہوں نے میرے نام کے سامنے رجسٹر میں نمبر لکھ دیے۔ مجھے نہیں معلوم انہوں نے اس وقت کتنے نمبر لکھے؟ بہرحال اس کے بعد کال پہ کال۔ معلومات اور اندیشے۔ ایک بار میری کال ’’ایٹا‘‘ والوں نے اٹھائی، تو کچھ یوں بات ہوئی:
میں: سنا ہے آپ نے امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا ہے، لیکن مجھے نہیں بلایا؟
ایٹا (غالبا سلیم نام تھا): جی ہاں! ان کو بلایا ہے جن کے نمبر پورے 30 تھے ٹائپنگ میں۔
میں:۔ اچھا تو ٹائپنگ کے نمبر 30 تھے، لیکن ٹیسٹ میں جو میرے 57 نمبر ہیں؟
ایٹا:۔ اس کا حساب نہیں۔ اگر ٹائپنگ میں 30 نہیں، تو اس کا مطلب آپ شارٹ لسٹڈ نہیں!
قارئین، اب آپ بتائیں، میں ایم فل ہوں۔ میرے ٹیسٹ میں اچھے مارکس تھے۔ ٹائپنگ میں 30 میں سے 23 نمبر تھے، لیکن مجھے انٹرویو تک کے لیے کال نہیں کیا گیا، کیوں؟
قارئین، آپ بتائیں کہ 30 میں سے 30 نمبر لینا کس قانون کی رو سے ضروری ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ لوگ اتنی سپیڈ نہیں رکھتے۔ بے شک ایسے بہت سارے ہیں جن کی سپیڈ اس سے بھی اچھی ہے، لیکن میں ’’سلیکٹڈ‘‘ میں سے ایسوں کو بھی جانتا ہوں، جو ایک ہاتھ سے ٹائپنگ کرتے ہیں اور انہیں میں آج بھی چیلنج کرتا ہوں کہ وہ تین منٹ میں 15 نمبر لے کر دکھائیں۔ اور پھر ایسے امیدوار جن کے ٹیسٹ میں نمبر 40 یا اس سے کم یا کاکچھ زیادہ تھے، لیکن انہیں رجسٹر میں ٹائپنگ کے زیادہ نمبر دے کر آگے کیا گیا۔ یہ کوئی الزام نہیں۔ آج بھی ان ’’سلیکٹڈ‘‘ کو بلا کر ٹیسٹ لیا جائے، تو لگ پتا جائے گا!
قارئین، یہ سب کچھ اس تحریک انصاف کے دور میں ہوا جس کے بلند بانگ دعوے تھے میرٹ کی بالادستی کے…… جس نے اقربا پروری اور کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ ایسا اب بھی ہورہا ہے…… میرے اور آپ کے آس پاس، لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ عدالت میں کالا کوٹ بنا فیس کے آپ کا کیس لینے کو تیار نہیں۔ جج کو فرصت نہیں کہ معاملے پر خود کوئی نوٹس لے، اور گونگے بہرے ہم جیسے عوام ہر ایک معاملے کو اللہ جی کے حضور پیش کرکے قیامت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی یہ خیال ذہن میں گزرتا ہے کہ اللہ جی بھی ہمارے بارے میں نہ جانے کیا سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسے بندے ہیں جو ہر ایک معاملے کو میرے سپرد کرکے لمبی تان کر سوجاتے ہیں……کیوں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔