ملکی سیاست میں ان دنو ں بھونچال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وزیر اعظم کی نااہلی ہو یا عمران خان کے اوپر لگائے جانے والے الزامات، سیاستدانوں نے میڈیا کو جنگ کا میدان بنا کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان سخت جنگ جاری ہے۔ دونوں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کر رہے۔ اگر ایک طرف پاکستان تحریک انصاف وزیر اعظم کی نااہلی پر مٹھائیاں بانٹ رہی ہے، تو دوسری طرف ایم این اے عائشہ گلالئی کے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر سنجیدہ اور کسی حد تک خطرناک الزامات نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی نیندیں بھی حرام کردی ہیں۔ اعلیٰ قیادت الزامات کو ماننے سے انکار کررہی ہے اور اس کو مسلم لیگ (ن) اور انجینئر امیر مقام کی سازش قرار دے رہی ہے۔ انجینئر امیر مقام نے تو پریس کانفرنس کے ذریعے ان تما م الزاما ت کو ماننے سے انکار بھی کر دیا ہے جبکہ الزامات لگانے پر قانونی نوٹس بجھوانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں، مگر سیاسی تجزیہ نگاروں نے موصوف کے بیان کو محض سیاسی قرار دیا ہے۔ اس مسئلہ کو اتنی ہوا دی گئی ہے کہ مفتی نعیم صاحب کی جانب سے بھی ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں من گھڑت الزام لگانے والوں کیلئے اسلام کی رو سے سزاکا تعین بھی کیا گیا ہے۔ اس سے ایک اور مشکل بھی حل ہوئی، کیوں کہ ہمارے ایک مولانا صاحب پاکستان کے ایک سیاسی لیڈرکو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں، باقی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ الزام لگانے والا چاہے جو بھی ہو، سزا کا حقدار ہوگا۔

عائشہ گلالئی نے پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق پربھی الزام لگایا ہے کہ اس نے بھی عائشہ کو شادی کی پیشکش کی ہے،جس کا اقرار نعیم الحق نے ٹویٹر پر بھی کیا تھا، مگر بعد میں شفقت محمود نے بیان دیا کہ موصوف کا ٹویٹر اکاؤنٹ ـ’’ہیک‘‘ ہوچکا ہے۔ اب تو سنجیدہ لوگوں کو بھی کسی حد تک یقین ہوچکا ہے کہ نعیم الحق صاحب کے اقرار کے بعد دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

قارئین، میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق عائشہ گلالئی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی باتوں پر قائم ہے اورضرورت پڑنے پر ان پیغامات کو عام کرنے سے دریغ نہ کرنے کا اعلان بھی وہ کرچکی ہے۔ عائشہ گلالئی نے پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق پربھی الزام لگایا ہے کہ اس نے بھی عائشہ کو شادی کی پیشکش کی ہے،جس کا اقرار نعیم الحق نے ٹویٹر پر بھی کیا تھا، مگر بعد میں شفقت محمود نے بیان دیا کہ موصوف کا ٹویٹر اکاؤنٹ ـ’’ہیک‘‘ ہوچکا ہے۔ اب تو سنجیدہ لوگوں کو بھی کسی حد تک یقین ہوچکا ہے کہ نعیم الحق صاحب کے اقرار کے بعد دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد خصوصی طور پر اس کی بہن پاکستان کی نمبر ون سکواش کھلاڑی ماریہ طورپیکئی کو خصوصی طور پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے نشانے پر رکھا اور ان کے بارے میں نازیبا پوسٹس کرتے رہے۔ یہ تو عمران خان کا بڑا پن تھا کہ تمام کارکنوں کو ہدایت کردی کہ عائشہ گلالئی کی بہن کے بارے میں جاری مہم کو فوری بند کیا جائے۔ ابھی یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ نئے منتخب وزیر اعظم نے عائشہ گلالئی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا، جس پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے مثبت جواب دیا اور کہا کہ میرے موبائل کے ساتھ ساتھ امیر مقام، جیونیوز کے مالک میر شکیل الرحمن، عائشہ گلالئی اور اس کے والد کے موبائل فون بھی چیک کئے جائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے اس اعلان کے بعد سنجیدہ سیاسی حلقوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ عائشہ گلالئی کے الزامات سچے ہوں یا جھوٹے، البتہ موبائلز چیک کرنے کے بعد یہ تو پتا چل جائے گا کہ اچانک سیاست میں نمودار ہوکر ترقی کرنے والے ’’کچھ‘‘ سیاسی لوگوں کو کس طرح اور کن کن لوگوں یا اداروں نے اس ’’مقام‘‘ تک پہنچایا ہے۔ الزامات عمران پر لگے ہیں اور وہ پیشی کیلئے تیار ہیں، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف خود کو بے گناہ سمجھتے ہیں، مگر امیر مقام اور دیگر کے کردار سے قطعی مطمئن نہیں۔ لہٰذا قائم کمیٹی کو عمران خان کے مطالبات ضرور ماننے چاہئیں، تاکہ اس قسم کی سیاست کا خاتمہ ہو۔

میڈیا کے مطابق وزیر قبائل نے ایم این اے عائشہ گلالئی کے گھر کا محاصرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور تو اور جرگہ نے موصوفہ کو پختون ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ اس پر بھی لوگ حیران ہیں کہ ایک عورت نے اتنے خطرناک الزامات ضرور لگائے مگر قبل از وقت عائشہ گلالئی کو مجرم ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے؟

دوسری طرف اس معاملے میں قبائل جو ڈرون حملوں، نقلِ مکانی اور طالبان جیسے اہم مسئلوں کو چھوڑ کرمحض ایک عورت کے خلاف جرگہ منعقد کر رہے ہیں، افسوسناک امر ہے۔ میڈیا کے مطابق وزیر قبائل نے ایم این اے عائشہ گلالئی کے گھر کا محاصرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور تو اور جرگہ نے موصوفہ کو پختون ماننے سے بھی انکار کردیا ہے۔ اس پر بھی لوگ حیران ہیں کہ ایک عورت نے اتنے خطرناک الزامات ضرور لگائے مگر قبل از وقت عائشہ گلالئی کو مجرم ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ابھی توصرف کمیٹی کا قیام ہوا ہے، فیصلہ بعد میں ہوگا۔ لہٰذا فی الحال صبر سے کام لیا جائے اور خصوصاً ان غیر لوگوں کی چال میں نہ آئیں جو کبھی یہ نہیں چاہتے کہ پختون قوم اتفاق سے ہو۔ اس کی تازہ مثال ’’دو نمبر سکالر‘‘ عامر لیاقت حسین ہے جس نے وزیر قبائل کے بارے میں انتہائی غلیظ الفاظ استعمال کئے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عائشہ گلالئی کا معاملہ جاری تھا کہ ہماری ایک قوم پرست پارٹی کے نوجوان لیڈر نے اپنی خاندانی روایات سے ہٹ کرعائشہ گلالئی کے بارے میں ایک ویڈیو بیان دیا جس پر عام لوگوں کے ساتھ اپنی ہی پارٹی کے اراکین بھی شدید ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ موصوف میں سیاسی پختگی نہیں، بس اپنے بڑوں کی وجہ سے سیدھے لیڈر بنا کر پیش قوم کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ حالاں کہ پختون روایات میں عورت کی عزت کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا۔ تاہم پارٹی والے سوشل میڈیا پر اس کے نام سے خبریں چلا رہے ہیں کہ موصوف کا کہنا ہے کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ اب ہم جیسے عام لوگ بھی شش وپنج کا شکار ہیں کہ کوئی اقرار کرکے بعد میں کہتا ہے کہ اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا اورکوئی بیان دینے کے بعد کہتا ہے کہ اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے، اب ہم عام لوگوں کی سمجھ سے ان سیاسی لوگوں کے ’’ہیک‘‘ اور ’’سیاق و سباق‘‘ والا معاملہ باہر ہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال آزادی کے دن سے شروع ہوئی ہے، قوم کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھ کر اہم معاملات کو نمٹایا جاتا ہے۔ گویا قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے۔

ملک میں جاری سیاسی صورتحال کی وجہ سے اہم مسئلوں سے لوگوں کی نظریں ہٹ چکی ہیں اور صرف سیاسی لوگوں کے مابین ہونے والے معاملات سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔  سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال آزادی کے دن سے شروع ہوئی ہے، قوم کو کسی نہ کسی طرح مصروف رکھ کر اہم معاملات کو نمٹایا جاتا ہے۔ گویا قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے۔ حکومتیں گرانے اور بنانے کے’’ماہر‘‘ لوگوں کو کسی صورت یہ قبول نہیں کہ اس ملک میں جمہوریت پروان چڑھے۔ عائشہ گلالئی کا مسئلہ ختم ہونے کے بعد کوئی اور مسئلہ سامنے آجائے گا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اس ملک میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ تمام ادارے قانون کے مطابق کام شروع نہیں کرتے اور ایسا ہونا قیامت کی علامات میں سے ہوگا۔
آخر میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو سوشل میڈیا کے ذریعے مزید نہ الجھائیں بلکہ حالات کا انتظار کریں۔ جو قصوروار ہوگا ذلت اس کا مقدر ہوگی۔
جاتے جاتے حسب سابق دعا ہے کہ ’’اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔‘‘