کہتے ہیں کہ بنوں میں یا تو روشن سورج سے منور دن کا نظارہ دیکھا جاسکتا ہے یا پھر رات کا۔ دونوں کو ملا نے میں شام والا حصہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا۔ اگر آپ کو گھومنے پھرنے کا شوق جنون کی حد تک نہ ہو، تو بھلا آپ بنوں کیوں جائیں گے؟ لیکن اگر آپ ابنِ بطوطہ کے مرید ہیں، تو چلتے چلتے ایک دِن بنوں بھی پہنچ جائیں گے۔ اِس شہر کو ایک قدیم شہر کا درجہ دیا جاتا ہے اور کئی ایک دروازے جو ایک زمانے میں شہر کو باہر کے ماحول سے بغرضِ حفاظت الگ کرتے ہوئے فصیل میں نسب تھے، اب شہر کے وسط میں وقوع پذیر ہیں۔
یہاں کی کئی ایک مشہور سوغات ہیں جن میں بنوں کا سالن مصالحہ، حلوہ اور پٹھانوں کا روایتی ’’نسوار‘‘ بہت ہی قابلِ ذکر ہیں۔ کچھ محققین تو اِس بات پر سر کھپائے بیٹھے ہیں کہ
’’پشاور سے میری خاطرنسوار لانا‘‘
میں پشاور کی جگہ بنوں کا لفظ تھا اور باالفاظِ دیگر
تجھ کو قسم ہے میری نہ آنا ہاتھ خالی
او بنوں جانے والے میری گلی کے لالے
میں بھی اِس آخری سوغات کی طرف اِشارہ بتایا جاتا ہے۔ اب یہ کہنا تو شاید درست نہیں کہ یہاں لوگ صرف اِ ن سوغات کو خریدنے آتے ہیں، کیوں کہ یہ سوغات خود ہی دوسرے شہروں میں سفر کرکے پہنچ جاتی ہیں۔ ورنہ اِن کے نام سے دوسرے علاقوں کی اشیا منسوب کرائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ کو گھر کی دہلیز پر بنوں کی سوغات ملتی ہو، تو آپ بنوں میں مارے مارے کیوں پھریں؟ کچھ نہیں تو ٹینچی بازار اور چوک بازار تو آپ کوحضرتِ میزبان بلا تمنا دکھانا اپنی میزبانی کے اوّلین فرائض میں شمار کرتا ہے۔ اور اوّل الذکر آپ دیکھیں یا نہ دیکھیں لیکن مؤخرالذکر آپ ضرور دیکھیں، مگر صرف شام کو۔ ورنہ آپ یہاں کی شادیوں میں دولہے کا دوستوں کے ہمراہ ڈھولک کی تھاپ کا ساتھ دینا نہ دیکھ پائیں گے۔

بنوں کو ایک قدیم شہر کا درجہ دیا جاتا ہے اور کئی ایک دروازے جو ایک زمانے میں شہر کو باہر کے ماحول سے بغرضِ حفاظت الگ کرتے ہوئے فصیل میں نسب تھے، اب شہر کے وسط میں وقوع پذیر ہیں۔

اگر تو آپ نے اندرونِ شہر کے بازاروں میں ٹرک یا بس کا گزرنا دیکھنا ہو، تو اِس کے لیے فجر کی نماز کے بعد کا وقت مناسب ہے۔ دِن کو تو یہاں اِنسان بھی بمشکل گزر سکتے ہیں۔ صبح کے وقت بازار میں گھومنے کے دیگر فائدوں سمیت ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو صفائی کرنے والے نظر آئیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بلدیہ والے اپنا کام تو کرتے رہتے ہیں لیکن یہاں کے مکین اُن کے رزق کو حلال کرنے کی خاطر اُن کا کام بڑھانا اپناروایتی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ویسے اس ضمن میں اس ملک کے دیگر شہری بھی کچھ کم نہیں۔
شہر کے اندرون پارک میں صبح کی سیر میں مصروف صرف مرد حضرات ہی دیکھے جاسکتے ہیں اِس کا یہ مطلب لینا غلط ہے کہ صرف مردہی صبح سویرے جاگتے ہیں۔ خواتین بھی علی الصباح اپنے کام میں مصروف ہوجاتی ہیں، لیکن گھر سے نکلنے کے لیے برقعہ اُوڑھاجاتا ہے اور برقعے میں واک (صبح کی سیر) ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہ مشاہدہ آپ خود ہی کیجیے، ورنہ تجربہ بھی کراسکتے ہیں۔ اور اگر آپ خواتین کو سیر کرتے دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ نے جگہ کا اِنتخاب غلط کیا ہے۔ آپ لاہور، کراچی یا اِسلام آباد جا کے دیکھیے۔ آخر بنوں ہی کیوں؟
یہاں تو مرد حضرات کا صبح کی سیر کرنا ہی بہت ہے۔ آخر مرد کی صحت سے ہی معاشرے کی صحت ہے۔ یہاں کے باسیوں کاچپل (باتھ روم سلیپرز) سے لگاؤ کا اندازہ آپ مارننگ واک کے دوران میں پہننے سے لگا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہاں سپورٹس شوز پہننا بھی پتلون کی طرح معیوب سمجھا جاتا ہو۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بنوں میں پتلون پہننا معیوب ہو نہ ہو، مگر نہ پہننا یقینا ضروری ہے۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔