آپ اگر چائے پینا چاہتے ہیں اور کوئی آپ کو گرم پانی ابال کر دے یا آپ کو صرف پانی میں دودھ اُبال کر دے، یا صرف چینی ڈال کر دے، یا صرف چائے کی پتی ڈال کر دے، تو آپ یقینا نہ صرف اسے پینے سے گریز کریں گے بلکہ الٹا آپ اُس سے ناراض بھی ہوجائیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ چائے کے اپنے اجزائے ترکیبی ہیں، جن میں پانی، دودھ، چینی اور چائے کی پتی شامل ہیں۔ ان سب سے مل کر ہی چائے بنتی ہے۔ جس طرح چائے کے اپنے مخصوص اجزائے ترکیبی ہیں، بالکل اسی طرح جمہوریت کے بھی اپنے مخصوص اجزائے ترکیبی ہیں جو مل کر ایک جمہوری طرزِ حکومت کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان اجزا میں سرفہرست سیاسی جماعتیں ہیں بلکہ جس طرح ایک مضبوط آبادی کے لیے ستون (Pillar) ضروری ہے، اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی جمہوری طرزِ حکمرانی کے لیے ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم ہوتی ہیں جن کے ذریعے عوام اپنی آواز صاحبِ اقتدار تک پہنچاتے ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی جماعتیں اپنے منشور پیش کرتی ہیں جو کہ عوام الناس کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کا کردار یہ ہوتا ہے کہ یہ لےڈر شپ پیدا کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ لےڈرشپ پیدا کرنے کی ایک فیکٹری ہوتی ہیں۔ جمہوریت کا یہ تقاضا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں میں الیکشن ہو اور پھر میرٹ کی بنیاد پر بہترین لےڈرشپ سامنے آئے جو ملک کی قیادت کرنے کی اہل ہو۔ لیکن ہماری نام نہاد جمہوریت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ یہاں پر ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتوں کی سربراہی ایک مخصوص خاندان کا فرد کرتا ہے، پھر اس کے بعد اس کا بھائی، بیٹا یا بیٹی۔ پھر اس کے بعد اس کا پوتا، پوتی، نواسا یا نواسی اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہتا ہے۔ ٹھیک اس طرح جس طرح ایک مغل بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی اولاد حصولِ اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں۔ لیکن فرق محض اتنا ہے کہ مغل شہزادوں کا مقابلہ تلوار کے ذریعے ہوتا تھا اور ان شہزادوں اور شہزادیوں کا مقابلہ نام نہاد انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے۔ پہلے یہ مقابلہ ایک ہی خاندان کے لوگوں کے بیچ ہوتا تھا، اب مختلف خاندانوں کے لوگوں کے بیچ ہوتا ہے۔ اب اگر آپ اس بادشاہت کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں، تو یا تو آپ کوجمہوریت کا مطلب پتا نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یا اگر آپ کو مطلب پتا ہے اور پھر بھی آپ اس کو جمہوریت کہتے ہیں، تو پھر آ پ منافقت سے کام لے رہے ہیں۔
اس طرح جمہوریت کا سب سے بڑا خاصا یہ ہے کہ اس میں احتساب کا کڑا عمل ہوتا ہے، اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو اسے دوسری طرز کی حکمرانی سے ممتاز بناتی ہے۔ یہ احتساب ملک کے ادارے کرتے ہیں اور اگر ان سے کوتاہی سرزد ہوجائے، تو پھر عوام الیکشن کے دوران میں حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ الیکشن کے دوران میں بلکہ اگر یہ اقتدار میں بھی ہوں، تب بھی عوام ان سے ان کی آمدنی، مالی اثاثوں اور غلط طرزِ حکمرانی بارے پوچھ سکتے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو عوام کو تسلی بخش جواب دینا پڑتا ہے، لیکن ہمارے ملک کی نام نہاد جمہوریت کا حال یہ ہے کہ ایک شخص جو اس ملک کا صدررہ چکا ہے، وہ ایک نجی چینل پر انٹرویو کے دوران میں کہتا ہے کہ ’’ چیئرمین نیب کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی کیا مجال ہے جو میرے اوپر کیس بنوائے!‘‘

یہاں پر ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتوں کی سربراہی ایک مخصوص خاندان کا فرد کرتا ہے، پھر اس کے بعد اس کا بھائی، بیٹا یا بیٹی۔ پھر اس کے بعد اس کا پوتا، پوتی، نواسا یا نواسی اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہتا ہے۔

جب کہ ایک دوسرا نام نہاد جمہوری لےڈر جو اس ملک کا تین دفعہ وزیراعظم رہ چکا ہے، اس سے جب پوچھا گیا کہ بھئی، آپ کے اور آپ کے بچوں کے پاس اتنی مال و دولت کہاں سے آئی، آپ اپنا ذریعۂ آمدن بتائیں۔ یہ پوچھنا ایک جمہوری حق تھا، تو تسلی بخش جواب دینے کی بجائے پہلے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور پھر جب اُسے ہٹایا گیا، تو جمہوریت کے اس جانباز سپاہی نے بھری تقریب میں برملا کہا کہ ’’اگر میرے اثاثے میرے ذرائع آمدن سے میچ نہیں کر رہے ہیں، تو تمہیں اس سے کیا بھئی!‘‘لیکن اس سب کے باوجود بھی اگر آپ ان پر تنقید کریں گے، تو ان جانبازوں سمیت اس ملک کا لبرل مافیا آپ پر الزام لگاے گا کہ’’آپ جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں!‘‘
یہ کیسی جمہوریت ہے جو احتساب کے عمل سے کمزور ہوتی ہے؟ اور اگر اس وجہ سے کمزور ہوتی ہے، تو پھر یہ جمہوریت ہے ہی نہیں ! ہاں، یہ بھی صحیح ہے کہ احتساب کا عمل اس وقت صرف سیاست دانوں تک محدود ہے اور ملک کا ایک طاقتور ادارہ فی الحال اس کے دائرہ کار سے باہر ہے، لیکن کیا ان سیاست دانوں کو جمہوریت کی خاطر سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرکے مثال قائم نہیں کرنی چاہیے، تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بڑھے؟ مگر اگر یہ کہتے ہیں کہ چوں کہ ایک طاقتور ادارہ فی الحال احتساب کے دائرہ کارسے باہر ہے، لہٰذا ہمارا بھی احتساب نہ کیا جائے، تو ان بادشاہوں سے درخواست ہے کہ پھر یہ جمہوریت کے ٹھیکیدار نہ بنیں اور عوام کو صاف صاف بتائیں کہ جس طرح وہ بادشاہ لوگ ہیں، اس طرح ہم بھی بادشاہ لوگ ہیں!
اس طرح جمہوریت لفظ ’’جمہور‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’عوام‘‘ یعنی عوام کی حکومت۔ لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت کا مطلب ہے خواص کی حکومت۔ کیوں کہ یہاں پر اقتدار کے ایوانوں میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کا رہن سہن، علاج، بچوں کی تعلیم سب کچھ ملک کے باقی عوام سے الگ ہے۔ ان کے اگر سر میں بھی درد ہوجائے، تو یہ لندن اور امریکہ علاج کے لیے جاتے ہیں اور ملک کے اندر اتفاقاً یہ جب باہر نکلتے ہیں، تو ایسے پروٹوکول کے ساتھ نکلتے ہیں کہ اگر مغل بادشاہ بھی اس زمانے میں ہوتے، تو وہ بھی یہ جاہ و جلال دیکھ کر شرما جاتے۔ اس لیے جب بھی ان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے، تو عام آدمی کچھ نہیں کہتا۔ کیوں کہ عام آدمی جانتا ہے کہ چاہے ان پر کوئی ادارہ حکمرانی کرے یا مخصوص خاندان، ان کے اور ان کے بچوں کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کا یہی برا حال رہے گا۔ ہاں، اگر واقعی جمہوری لوگ آئے اور پھر کوئی ادارہ ان کے خلاف سازش کرے گا، تو عام آدمی ضرور اٹھے گا اور بولے گا کہ’’اس سے میرے اور میرے بچوں کی زندگی پر اثر پڑتا ہے، لہٰذا اس عمل سے دور رہیں۔‘‘

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔