لوگ اپنی سیرت سے جانے جاتے ہیں۔ ہاں، صورت سے بھی دور سے پہچاننے میں مدد ملتی ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خاص اداؤں، نزاکتوں اور طرزِ گفتگو سے نہ صرف پہچانے اورگردانے جاتے ہیں بلکہ یاد بھی رکھے جاتے ہیں۔
ایک ہمارے ’’قلبِ عزیز‘‘ کے بقول: ’’ڈاکٹر تو ہم ہیں ہی لیکن ہم میں وہ خاص نزاکت اور شوخی ابھی اس حد تک نہیں رچی کہ ’’میڈیکل ریپس‘‘ کا ہمارے کلینک کے باہر تانتا بندھا رہے۔‘‘
ہم کہتے ہیں کہ فکرمند نہ ہوئیے کہ اس میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ کل کو آپ بھی معروف ڈاکٹروں کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے اور اُن کے منظورِنظر افراد میں آپ کا بھی شمار ہوگا۔ اندرونی اور بیرونِ ملک کانفرنسوں کے لیے آپ بھی اُن کے پروں پر پرواز کرنے کا موقع پائیں گے۔
ہمارے ایک اور دوست کی بیگم کافی مصروف و معروف گائنا کالوجسٹ ہیں۔ اکثر دوست میاں کے نام کے ساتھ آخر میں بیگم کے نام کا لاحقہ لگا کر ان کی پہچان کراتے ہیں۔ خیر، بیگمات کی برکات کا تو یہ عالم ہے کہ اُن کے بل بوتے پر تو بعض شوہر بہت قد آور شخصیات کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔
چلیے جی، اب ذرا گھریلو گفتگو سے نکل کر شارع پر آتے ہیں۔ اپنی پہچان کی بات ہو، تو اداؤں، طرزو انداز سے ہم کیا پہچانے جائیں گے؟ کمی ہم میں نہیں، اپنے لیے اہلِ نظر ہی نہیں، اور کیوں ہوں بھلا جب تمام نگاہیں دوسری طرف اٹکی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم میں اداؤں کی کمی ہے، تو پہچان نہیں ہے۔ یقین جانیے، گھر میں ہماری پہچان ہے۔ کیوں کہ بقول پطرس بخاری: ’’میں ایک میاں ہوں مطیع اور فرماں بردار۔‘‘
ویسے بیگمات کے اطاعت مند شوہروں کو ایوارڈز ملتے، تو ہزاروں ہم سے پہلے دعوا گر ہوتے۔ ہماری تو باری ہی نہ آتی۔ ایک لمبی سرکاری فہرست بنتی اور منظورِ نظر افراد اس میدان میں بھی حقداروں کو مات دیتے، لیکن ہم نا اُمیدی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ اِس لیے ہمارا خیال ہے کہ گھر کے باہر بھی اپنی پہچان ہے۔ آخر ایک پرانی گاڑی کے مالک جو ٹھہرے۔ ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ یہ پرانی گاڑی ہی ہماری پہچان ہے۔
بخدا اس سے ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم بھی ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کی طرح یاد کیے جائیں کہ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب اپنی پرانی فوکسی میں باہر نکلے، تو ٹریفک پولیس والے نے گاڑی رُکوالی اور کاغذات کا استفسار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایاکہ ’’کاغذات گھر پر ہیں۔‘‘
پولیس والے نے حیرت سے سوال کیا: ’’گاڑی سڑک پر اور کاغذات گھر پر؟‘‘
اس پر ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی کہ ’’جناب، گاڑی کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ کاغذات چوری ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے باامر مجبوری گھر پر رکھنا پڑتے ہیں۔‘‘
پولیس والے نے نام اور کام کاپوچھا،تو جواب ملا: ’’ڈاکٹر مبشر حسن ( پی ایچ ڈی)۔‘‘
پولیس والے نے کہا: ’’سر اگر میں مغالطہ میں نہیں، تو آپ پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں!‘‘
ڈاکٹر صاحب: ’’جی ہاں!‘‘
پولیس والا: ’’جائیے سر!‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’آپ میرا چالان نہیں کریں گے؟‘‘
پولیس والا: ’’سر آپ اتنا عرصہ ملک کے وزیرِخزانہ رہے ہیں۔ اپنی پرانی گاڑی تو بدلنے سے رہے، چالان کیسے بھریں گے؟یہاں تو چار ماہ مشیر رہ کر بھی ’’بی ایم ڈبلیو‘‘ میں گھومتے ہیں۔‘‘

بقول پطرس بخاری: ’’میں ایک میاں ہوں مطیع اور فرماں بردار۔‘‘ (Photo: The News International)

پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ایسا اِرادہ ہمارا قطعی نہیں کہ ہم اپنی حالیہ کابینہ کے وزیروں اور مشیروں کے لیے باعثِ شرمندگی بنیں۔ البتہ پرانی گاڑی رکھنے کے کچھ فوائد ہمیں ضرور نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ہم میں وہ گھمنڈ ہی نہیں جو ایک نئی نویلی گاڑی کے مالک میں پایا جاتا ہے۔
دوسرا بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے ذہن پر سوار نہیں رہتی بلکہ ہم اِس پر سوار رہتے ہیں۔
اب دیکھیے ناں، اگر نئی گاڑی ہم لے بھی لیں، تو اُس کی ہمیں بہت فکر لاحق ہو گی۔ اُس کی چوری کا ڈر تو ایک طرف اُس پر ایک معمولی لکیر کا صدمہ بھی ہم سے برداشت نہ ہو پائے گا۔ لہٰذاہم ’’لکیر کا فقیر‘‘ بننا نہیں چاہتے بلکہ ہم تو بغیر لکیر کے ہی فقیر ی پر اِکتفا کیے ہوئے ہیں۔
ہمارے ایک عزیزدوست جو مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے ہم نام ہیں۔ ہم پر اپنی نئی گاڑی کا رُعب جھاڑنے کے لیے ایک وطیرہ یوں استعمال کرتے ہیں کہ ہماری سالم سلامت گاڑی کو ’’کریڑہ‘‘ (پشتو کا لفظ ہے جو چھوٹی مچھلی کے لیے مستعمل ہے) پکارتے ہیں۔ اب بھلا اُن کی گاڑی اور ہماری گاڑی میں ما سوائے کئی لاکھ روپے کی قیمت کے، باقی تو کچھ فرق نہیں۔ اور قیمت کا فرق تو ہم کوئی خاص فرق سمجھتے ہی نہیں، کیو ں کہ روپیہ پیسہ کبھی ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔ پیسہ کمانے کا شوق ہمیں اپنے دیگر مشاغل سے دور رکھے، یہ ہمیں منظور نہیں۔ لہٰذا یہ تو کوئی خاص فرق ہی نہیں جس کا تذکرہ کیا جائے۔ باقی رہی بات دیگر سہولیات اور سفر کی، تو ہماری گاڑی بھی ویسے ہی چابی سے اسٹارٹ ہوتی ہے جیسے ایک نئی گاڑی۔البتہ کبھی کبھار محلے والوں کی معاونت درکار ہوتی ہے لیکن یہ تو کوئی ذکر کرنے والی بات ہی نہیں۔ محلے داری بھی تو کوئی چیز ہے۔ آخر اِنسان ہی اِنسان کے کام آتا ہے۔ اب اگر ہماری بے جان موٹر گاڑی کے کام آئے، تو اِس میں کیا حرج ہے؟ بقول حالیؔ:
یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
رہی بات یہ کہ اس میں سواریاں کتنی آسکتی ہیں؟ تو یہ حالات پر منحصر ہے۔ ایک سے لے کر کئی مناسب الجسامت افراد اس میں سمائے جاسکتے ہیں۔ جب کہ ایسی جسامت والے افراد جن کا اپنے جغرافیہ پر قابو نہیں رہا ہو، کسی نئی گاڑی میں بھی اُتنی ہی کم تعداد میں سموئے جاسکتے ہیں جتنی کہ ہماری موٹر گاڑی میں۔
جہاں تک تعلق ہے اس کے ’’وئیر اینڈ ٹیئر‘‘ کا، تو ہم زندگی میں دوسروں کے کام آنا اور اُن کے کاروبار کو دوام بخشنا اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں۔ اگر ہماری پرانی گاڑی میں بقدرِ عمر خرابیاں آتی بھی ہیں، تویہ مستری حضرات کس مرض کی دوا ہیں؟ ہم تو اُن کے کاروبار کی خاطر یہ گاڑی رکھے ہوئے ہیں۔ اب ہم تو احمد شاہ پطرس بخاری کی طرح ہو نہیں سکتے کہ فرماتے ہیں: ’’اگر سڑک پر کوئی نئی موٹرگاڑی اِس ادا سے گزر جائے کہ گرد و غبار پھیپھڑوں، دماغ اور معدے تک پہنچ جائے، تو گھرمیں دسویں جماعت کی علم کیمیا کی کتاب کھول کر اس میں بم بنانے کا نسخہ تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اب جب کہ ہم ’’بنفسِ نفیس‘‘ کیمیادان واقع ہوئے ہیں، لیکن ہم اس غرض سے بم ہرگز نہیں بنائیں گے۔ البتہ کسی نئی گاڑی والے کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا، تو اپنی گاڑی کواس انداز سے ذرا سا اُن کی گاڑی کی قربت میں لائیں گے کہ دونوں پر ایک دوسرے کارنگ چڑھ جائے۔ مزید یہ کہ اگرکسی نئی گاڑی والے کو سڑک پر ہماری پرانی گاڑی کا وجود اچھا نہ لگے، تو چلیں وہ خود ہماری موٹر کار سے ٹکر کی حسرت پوری کر لیں۔ اس پر ہم اعتراض کبھی نہیں کریں گے بلکہ اس عمل میں ہم اُن کا ساتھ بھی دیں گے۔ بشرط یہ کہ اُن کی گاڑی ہماری گاڑی سے کافی نئی ہو۔ آخر زندگی صرف اپنے لیے تو نہیں گزاری جاتی۔ دوسروں کی خواہشات کا بھی تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔
کئی دوستوں نے ہمیں گاڑی بیچنے کا مشورہ دیا، لیکن ہم سے پہلے بھی کچھ ایسے حضرات گزرے ہیں جن کی کار بکنے کی داستان ہمارے لیے باعثِ عبرت بن گئی اور اُن کے ’’کار بکاوی‘‘ عمل سے کم از کم ہم نے تو نصیحت لی ہے۔ لہٰذا فی الفور ایسا اِرادہ ترک کر نا ہی بہتر ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیے ہم سے پہلے اس عمل میں کیا کچھ لوگ بھگت چکے۔
جناب کرنل محمدخان صاحب کو بیٹھے بیٹھے جب ایسی ہی ایک پرانی موٹر گاڑی کے بیچنے کا خیال آیا، تو اُن کے احوال اُن کی زبانی ملاحظہ فرمائیے اور پھر ہمیں مشورہ دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ فرماتے ہیں: ’’ہمارے کار فروشی کے فعل کو سمجھنے کے لیے کار سے تعارف لازمی ہے۔ یہ اُن کاروں میں سے نہیں جو خود بخود بِک جاتے ہیں۔ اِس متاعِ نہر کے ساتھ ہمارا اپنا بِکنا بھی لازم تھا۔ یعنی اِس کار کے بیچنے کے لیے ایک پانچ سالہ منصوبے کی ضرورت تھی۔ لیکن ہمارے پاس صرف تین دِن تھے۔ کیوں کہ چوتھے روز ہم نے فرنگ کو پرواز کر جانا تھا۔ سو ہم نے ازراہِ مجبوری سہ روزہ کریش پروگرام بنایا جس کا لب لباب یہ تھا، آج اِشتہار، کل خریدار، پرسوں تیس ہزار……!
سو ہم نے اشتہار دے دیا:
’’کار بکاؤ ہے۔‘‘
ایک کارِ خوش رفتار، آزمودہ کار، قبول صورت، فقط ایک مالک کی داشتہ۔ مالک سمندر پار جا رہا ہے۔ رابطہ فرمایئے۔
یہ سب کچھ صحیح تھا لیکن جو اس سے بھی صحیح تر تھا وہ موصوفہ کی عمر تھی جس کا صحیح اندازہ حضرت خضرؑکے سوا کسی کو نہ تھا۔ وہ طویل مسافت جو محترمہ طے کرتے کرتے لڑکھڑانے لگی تھی اور اس کے اندرونی اعضا کی وہ باہمی شکر رنجیاں جنہیں شیر و شکر کرنے میں ممدوحہ کے مالِک اور گردونواح کے تمام مستری بے بس تھے۔‘‘
اُن کے ادا کیے گئے یہ الفاظ اِتفاقاً ہماری گاڑی پر بھی بعینہٖ مناسب ٹھہرتے ہیں۔ حضرت کی کوشش تو کار گرآئی اور بقول اُن کے ’’کار بِکی لیکن تیس ہزار کی بجائے صرف تین ہزار میں۔‘‘ سو ہم تو اِس عمل کو دہرانا گوارا نہیں کرتے۔کیوں کہ
عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیسؔ کی آبرو کا پاس کیا
ہمیں بھی کرنل صاحب کی طرح مارکیٹنگ آتی ہے، لیکن ہم اپنی پُرانی کاربے قدروں کے ہاتھ بیچنا نہیں چاہتے۔ کئی مرتبہ خیال آیا کہ عجائب گھر والوں کو تحفے میں دے دیں۔ پھر اِس آس پر یہ اِرادہ ترک کیا کہ شائد کسی پرانی گاڑی کی ضرورت کسی ایکشن فلم والے کو پڑے اور ہمارے فون پر ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں کی کالیں آنی لگیں، ہم سے وہ اِلتجائیں کرنے لگیں، تو یوں ہماری گاڑی بھی بے قدروں کے ہاتھ بِکنے کی بجائے قدردانوں کے ہاتھ مہنگے مول بِکے۔
’’اپنی پُرانی شیراڈ کار کی یاد میں۔‘‘

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔