سوات کے عوام کے ساتھ حکومت کی جانب سے مذاق اور عوام کو ’’اُلو‘‘ بنانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں سوات کے عوام کو بے وقوف بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت نے ’’ڈسٹرکٹ ہےڈ کوارٹر بیوٹیفکیشن‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے کا فنڈ جاری کیا جس میں زندہ لوگوں سے زیادہ مردوں پر توجہ دی گئی۔ اس ضمن میں مینگورہ شہر کے قبرستانوں کی چار دیواری کی گئی جس کی وجہ سے اب وہ قبرستان نشیوں اور جرائم پیشہ افراد کے محفوظ ٹھکانے بن چکے ہیں۔ اس کے بعد ’’ڈویژنل ہےڈ کوارٹر بیوٹیفکیشن فنڈ‘‘ کے نام پر مینگورہ شہر کی خوبصورتی کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کا فنڈ جاری کیا گیا۔ ’’ایک ارب‘‘ روپے سے زائد فنڈ کا سن کر عوام کے دل میں خیال آیا کہ اس فنڈ سے مینگورہ شہر کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے اور اس کو خوبصورت بنایا جائے گا۔ یہ فنڈ صوبے کے تمام ڈویژنل ہےڈ کواٹرز کو مساوی طور پر جاری کیا گیا تھا۔ ملاکنڈ ڈویژن میں یہ فنڈ صرف مینگورہ اور سیدو شریف کے لیے تھا، لیکن سب سے پہلے وزیر اعلیٰ کے کہنے پر اس فنڈ سے مراد سعید کو ’’خصوصی فنڈ‘‘ غیر قانونی طور پر دیا گیا، جس کو انہوں نے کبل میں استعمال کیا۔
اگر جائزہ لیا جائے، تو مینگورہ شہر اس وقت صوبے کا گندا ترین شہر ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ ایک ارب سے زیادہ کے فنڈ سے مینگورہ شہر سے کم از کم گندگی کا خاتمہ تو کر دیا جائے گا۔ مینگورہ خوڑ اور سیدو شریف خوڑ جو غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس کی اولاً صفائی کی جائے گی اور ثانیاً مستقل بنیادوں پر اس کو صاف رکھنے کے لیے پلاننگ کی جائے گی۔ لیکن ہمارے ظالم حکمرانوں اور بے رحم سرکاری افسران نے اس فنڈ کا وہ حشر کیا جو طالبان اور سیلاب نے سوات اور اس کے عوام کا کیا تھا۔ مذکورہ فنڈ سے کالج کالونی سیدو شریف کی سڑکیں جو انتہائی خراب حالت میں تھیں، کی بہتر تعمیر کی گئی جس پر فنڈز خرچ کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہیں، لیکن اس جگہ بھی انہوں نے یہ کام اس لیے کیا، کیوں کہ وہاں سرکاری افسران رہتے ہیں۔ لےڈیز پارک کالج کالونی جہاں پر سرکاری افسران کے بنگلے ختم ہو جاتے ہیں، وہاں سے سٹی سکول یا قبرستان تک کی سڑک جو انتہائی خراب حالت میں ہے، کو رکھ چھوڑا گیا۔ اس طرح سیدو شریف مین روڈ پر واقع اللہ اکبر کالونی کی چند سو میٹر سڑک جو آثارِ قدیمہ کا منظر پیش کر رہی ہے، کو اس فنڈ میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ مذکورہ روڈ پر صرف چند لاکھ کا خرچ اُٹھتا ہے۔ واضح رہے کہ اللہ اکبر کالونی میں رہائشی گھروں کے علاوہ، نجی سکول، ہسپتال، سرکاری دفاتر اور کچھ عدالتیں بھی ہیں، لیکن یہ ’’قابلِ رحم‘‘ سڑک ان افسران اور عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کی آنکھوں سے اُوجھل رہی۔

مینگورہ اس وقت صوبے کا گندا ترین شہر ہے۔ (Photo: Dawn)

ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ان حکمرانوں اور سرکاری افسران کے کہنے پر گرین چوک مینگورہ سے پولیس لائن بائی پاس چوک تک انتہائی اچھی حالت میں موجود 1.7 کلومیٹر سڑک پر 3 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 880 روپے کی لاگت سے دوبارہ تارکول ڈالا گیا اور یوں حکومتی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ یوں اُن علاقوں، جن کی سڑکیں انتہائی خراب ہیں، کے ساتھ انتہائی بے انصافی کی گئی۔
اب ایک اور زیادتی ملاحظہ ہو، قمبر سے فضاگٹ چوک تک مینگورہ بائی پاس کی بنی بنائی سڑک کو 11 کروڑ 40 لاکھ 33 ہزار 3 سو 3 روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ نویکلے چوک سے اینگرو ڈھیرئی روڈ پر گاڑیوں کا چلنا اب تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ بارش کے دوران میں یہ سڑک کسی ندی یا خوڑ کی صورت میں گویا عذاب بن جاتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔
ہاں، اس فنڈ سے سیدو شریف روڈ کی دیواروں پر ’’پینٹنگ‘‘ کے نام سے لیپا پوتی کی گئی، جس پر بھی لاکھوں روپیہ اُڑا دیا گیا۔ اس طرح مینگورہ شہر میں لاکھوں روپے کے فنڈ سے چوکوں کو تعمیر کیا گیا، لیکن ان کے ڈیزائن کو انجینئرز کی بجائے ’’یونیورسٹی کے طلبہ‘‘ کی مدد سے بنایا گیا، جس کی وجہ سے اب یہ چوک ’’ناقابلِ استعمال‘‘ ہوچکے ہیں۔ چوک میں بنائے گئے چبوترے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر بارش یا سخت دھوپ کے دوران میں ٹریفک پولیس کھڑی ہو کر ٹریفک کو کنڑول کر سکے، لیکن ان چوکوں میں اب مینار نما جگہیں بنائی گئی ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ تر پولیس اہلکار سڑک کے کسی حصے میں کھڑے ہوکر ٹریفک کو کنڑول کرتے ہیں۔ شائد اسی وجہ سے ٹریفک کا نظام مزید خراب ہوگیا ہے۔
مینگورہ شہر کے اندر نیو روڈ اور مین بازار میں تاج چوک کی سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کے ’’پیچ ورک‘‘ پر چند لاکھ روپے خرچہ آتا ہے، لیکن ان جگہوں کو اسی طرح خراب حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ بیوٹیفکیشن فنڈ جلد ختم اور ہضم کرنے کے لیے سیدوشریف؍ عقبہ روڈ اور دیگر سڑکوں کے کنارے پہلے سے تعمیر شدہ ’’شولڈرز‘‘ کو توڑ کر دوبارہ تعمیر کیا گیا اور ٹھیکیداران صاحبان نے اس گرمی میں بھی دوبارہ تعمیر ہونے والے شولڈرز کی بجری کو پانی دینے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔ اس طرح روڑے کو سڑک کنارے چھوڑ کر اپنے بل پاس کیے۔ اب مذکورہ ’’شولڈرز‘‘ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سڑک کنارے کھڑے درختوں کو بھی سیمنٹ اور بجری میں بند کیا گیا، جس کے بعد اب ان درختوں کو پانی اور ہوا ملنے کی کوئی سبیل نہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد یہ درخت سوکھ جائیں گے اور لوگ مذکورہ درختوں سے حاصل ہونے والی اکسیجن سے محروم ہو جائیں گے۔

فنڈ سے سیدو شریف روڈ کی دیواروں پر ’’پینٹنگ‘‘ کے نام سے لیپا پوتی کی گئی۔

میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ ڈویژنل ہےڈ کواٹربیوٹیفکیشن کے ایک ارب سے زائد فنڈ کو ضائع کیا گیا۔ اس میں صرف کالج کالونی کی سڑکیں جو خراب حالت میں تھیں، کو تعمیر کیا گیا اور سڑک کنارے جو ’’سولر اسٹریٹ لایٹس‘‘ لگائے جا رہے ہیں، اس کام کو بھی لوگ سراہتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کام کب سے شروع کریں گے؟ اور اس کی لایٹ، بیٹری اور سولر پلیٹ کی گارنٹی یا وارنٹی کتنے سال کی ہوگی؟ نیز یہ کب تک چل پائیں گے؟
یاد دِلاتا چلوں کہ اس سے چند سال پہلے گراسی گراؤنڈ میں بھی سولر لائٹس لگائے گئے تھے، جو ایک گھنٹا بھی روشن نہیں ہوئے تھے اور اب ’’ماشاء اللہ‘‘ ناکارہ ہوگئے ہیں۔
مینگورہ شہر کی خوبصورتی اچھی بات ہے، لیکن شہر کی خوبصورتی سے پہلے عوام کی بدصورتی کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ اس وقت مینگورہ شہر میں سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ رمضان المبارک میں بھی ملوک آباد سے گنبد میرہ اور سیدو شریف سے فضاگٹ تک کے لوگ دور دور سے پانی لانے پر مجبور تھے۔ شہر میں بجلی کے ’’ٹرانسفارمرز‘‘ کا مسئلہ ہے۔ کسی نہ کسی گلی یا محلے کا ٹرانسفارمر روزانہ کے حساب جل جایا کرتا ہے، جس کی وجہ سے پھر اس محلہ کے لوگ کئی دنوں تک گرمی میں بجلی کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اس طرح شہر میں سیکڑوں دیگر عوامی مسائل ہیں، جو شہر کی دیواروں کو رنگ کرنے اور پہلے سے تعمیر شدہ سڑکوں کو دوبارہ تعمیر کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ پہلے عوام کی بنیادی مسائل کو حل کیا جائے اور اس کے بعد شہر کی خوبصورتی پر کام کیا جائے۔ ایک بات اور، شہر کی خوبصورتی کا مقصد دیواروں کو رنگنے سے پورا نہیں ہوتا۔ شہر تب خوبصورت ہوگا، جب شہر کو گندگی سے صاف کیا جائے گا۔ شہر میں اتنے درخت لگائیں گے کہ ہر طرف ہریالی ہو جائے ۔ اس فنڈ میں ٹھیک سڑکوں کو کروڑوں روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کرنے اور اس فنڈ میں ہونے والے بے ضابطگیوں کے بارے میں ’’نیب‘‘ کو نوٹس لینا چاہیے اور جو اس فنڈ میں خرد برد اور بے ضابطگئیوں کے زمدار ہے ان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئیندہ کوئی عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے اور سرکاری افسران عوام کے ٹیکس والے فنڈز سے عوام کے ساتھ مذاق نہ کرسکے۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔