آخری روز ’’ہاکونے‘‘ میں ہمیں یہاں کی مشہور ثقافتی لکڑی کے کام جسے ’’یوسی گی ووڈ آرٹ‘‘ کہتے ہیں، کے ورکشاپ اور ڈسپلے سنٹر لے جا یا گیا، جہاں ہمیں اس فن کے مختلف مراحل سے گزارا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ورکشاپ کے مالک نے ہم سے بھی ڈیکوریشن کی چیزیں بنوائیں جس سے نہ صرف ہم نے مزہ لیا بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بھی دوڑ دھوپ کی۔
کہا جاتا ہے کہ جاپان میں دستکاری اپنے عروج پر ہے، جس کی اہم وجہ یہاں کے دستکاروں کی ان تھک محنت اور اعلیٰ معیار ہے۔ ان لوگوں نے ایک طرح سے اپنے فن کو کمال تک پہنچایا ہے۔ ان دستکاروں کی محنت اور قابلیت ان کے فن سے عیاں ہے۔ چاہے جنتا بھی باریک کام ہو، اس میں معمولی غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ ہم نے یہاں اعلیٰ معیار کے فوٹو فریم، چھوٹے صندوقچے اور ڈیکوریشن کی کئی چیزیں دیکھیں،جنہیں یہاں آئے ہوئے سیاح شوق سے خرید رہے تھے۔
’’ہاکونے‘‘ میں ہم دو دن رہے جس میں ہم نے پروگرام کے آخری پبلک فورم کے لیے تیاری کرنا تھی، تاہم مجھے یہ خوبصورت وادی بہت ہی پسند آئی اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اگر موقع ملا تو مَیں ’’کیکو‘‘ کے ساتھ ایک بار ضرور یہاں کی سیر کروں گا۔ جب ہم واپس ٹوکیو پہنچے، تو ہمارے پاس چند دن فارغ تھے، جس میں ہر ایک فیلو نے اپنی مرضی کے حساب سے پروگرام بنایا۔ میں شام کو حسبِ معمول کیکو کے سٹور پر گیا، تاکہ ان سے مل سکوں۔ میں جب وہاں پہنچا، تو ’’کیکو‘‘ حسبِ معمول اپنے کام میں مصروف تھیں۔ اس لیے سٹور کے اندر مختلف چیزیں دیکھنے کے واسطے الماریوں کی طرف گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں نے دیکھا کہ ’’کیکو‘‘ فارغ ہیں، تو ان کے پاس گیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا۔وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے گئیں۔ انہوں نے مجھ سے ’’ہاکونے‘‘ کے بارے میں دریافت کیا، تو مَیں نے اپنے دل کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ 29 اکتوبر کو اتوار کا دن ہے۔ اس لیے ہم دونوں ایک ساتھ ’’ہاکونے‘‘ چلیں گے۔ کیکو نے چند لمحے سوچنے کے بعد نو بجے کام سے فارغ ہو کر ساتھ کھانا کھانے کی پیشکش کی، جسے میں نے بخوشی قبول کیا۔ ہم ٹھیک نو بجے ’’ٹوکیو مڈ ٹاؤن‘‘ کے قریب ایک جاپانی ریسٹورنٹ گئے، جہاں کیکو نے اپنی مرضی سے خوراک کا آرڈر دیا، جس میں چاول، سبزی کا سوپ اور چکن شامل تھا۔ دلکش ’’کیکو‘‘ اپنے کام کے کپڑوں میں ملبوس تھی، جس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ بات شروع کرتے ہوئے میں نے اتوار کے دن کا پروگرام پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ کہ وہ مجھے جاپان کے ایک دور دراز ’’شیمبارا‘‘ نامی قصبہ لے جانا چاہتی ہیں جو ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ میں نے فوراً حامی بھری۔ طے پایا کہ ہم ہفتہ یعنی 28 اکتوبر کو روانہ ہوں گے اور 29 تاریخ کا پورا دن وہاں گزاریں گے۔ ہم نے کھانا کھایا، کیکو نے بل ادا کیا اور ہم پیدل ہی آئی ہاؤس کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں ’’روپونگی سب وے سٹیشن‘‘ پر میں ’’کیکو‘‘ کو رخصت کرنے کے بعد آئی ہاؤس چلا آیا۔ ہفتہ کی صبح میں تیار ہوکر نیچے آیا، تو کیکو پہلے سے وہاں موجود تھیں۔ وہ سیاہ لباس میں بلا کی حسین لگ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر وہ اٹھیں اور میرے طرف آئیں۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے ان کے لباس کی تعریف کی جس پر وہ شرماتی ہوئی مسکرائیں۔

ہاکونے جاپان کی خوبصورت وادی کا ایک دلفریب منظر۔ (Photo: FAST JAPAN)

ہم باہر نکلے اور ’’شیناگاوا سٹیشن‘‘ کے لیے ٹیکسی پکڑا۔ شینا گاوا سٹیشن سے ہم نے ’’شین اوساکا‘‘ کے لیے ’’شین کین سن ٹرین‘‘ پکڑی۔ ہم جب ٹرین میں اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے، تو ’’کیکو‘‘ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا: ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم دونوں ساتھ لمبے سفر پر کہیں جا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے وہ کہیں سیر کے لیے گئی ہیں اور نہ اس نے ایسا کبھی سوچا تھا۔ ’’آپ واقعی مختلف ہیں۔ کیو ں کہ میری زندگی مشین کی طرح ہوگئی تھی جس میں کام، کھانے اور سونے کے علاوہ کوئی اور چیز تھی ہی نہیں۔ اپنی زندگی میں دو دن نکالنا اور وہ بھی سیر سپاٹے کے لیے جانا عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہم جیسے اوسط درجے کے جاپانیوں کے پاس ان کاموں کے لیے وقت نہیں ہوتا۔‘‘ کیکو کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہی تھیں۔ اس طرح ہم جاپان کی سماجی زندگی کے بارے میں بات چیت کر تے ہوئے سفر کاٹ رہے تھے۔ تقریبا ً چار گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم ’’شین اوساکا سٹیشن‘‘ پر اترے۔ کیکو کو ہر کام کی جلدی ہوتی تھی۔ اس لیے اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور تیز قدموں سے دوسری ریل کے لیے چلنے لگیں۔ میں نے چلتے چلتے کہا کہ ذرا آہستہ چلیں، جواباً انہوں نے کہا، ریل گاڑی ہمارا انتظار نہیں کرے گی اور پہلے سے زیادہ تیزقدموں سے چلنے لگیں۔ ہم نے ٹکٹ خریدے اور دوسری منزل کے پلیٹ فارم پر پہلے سے موجود ریل گاڑی جو ’’ہکاٹا ، فوکواکا‘‘ سٹیشن کے لیے روانہ ہونے والی تھی، میں بیٹھ گئے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم ’’ہکاٹا ، فوکواکا‘‘ پہنچے، جہاں ہم ایک اور ریل میں ’’ناگا ساکی‘‘ شہر کے لیے روانہ ہوئے۔

ناگاساکی جاپان کی شام کے وقت لی جانے والی تصویر۔ (Photo: ewallpapers.eu)

جی ہاں، ’’ناگاساکی‘‘ وہی بدقسمت شہر ہے جس پر دوسری جنگی عظیم میں ہیروشیما کے بعد ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ 9 اگست سنہ 1945ء کو گرائے جانے والے ایٹم بم نے ناگاساکی شہر میں چالیس ہزار افراد کو بے دردی سے لقمۂ اجل بنایا تھا۔ تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم ’’ناگا ساکی ٹرین سٹیشن‘‘ پر اترے۔ یہاں سے ہم نے ’’ایسا ہایا سٹیشن‘‘ کے لیے لوکل ٹرین پکڑی اور پھر وہاں سے ’’شیما بارا سٹیشن‘‘ کے لیے ایک اور لوکل ٹرین بدلی۔ ہم جب شیما بارا پہنچے، تو شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ہم انتہائی تھک چکے تھے، مگر یو ں لگ رہا تھا کہ یہ ’’کیکو‘‘ کا ساتھ ہی ہے جس کی وجہ سے میں بالکل تھکاوٹ محسوس نہیں کررہا تھا بلکہ یہ میرا پہلا سفر تھا جسے میں دل ہی دل میں اور بڑھانا چاہتا تھا۔ ہم نے ’’شیمابارا سٹیشن ہوٹل‘‘ میں ہی کمرہ لیا اور اور تقریبا ً ایک گھنٹا آرام کرنے کے بعد باہر نکلے۔ باہر ’’شیما بارا‘‘ کی سڑکیں اور گلیاں خاموش تھیں، جہاں گاڑیوں اور انسانوں کی تعداد بہت کم نظر آئی۔ یہ پُرسکون شہر ’’ماؤنٹ اونزن‘‘ کے دامن اور ’’دریائے آریکا‘‘ کے ساحل پر واقع ہے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ’’کیکو‘‘ نے خاموشی توڑی اور کہنے لگیں کہ وہ ایک دفعہ بچپن میں یہاں آئی تھیں، تویہاں کے فطری حسن، سکون اور تنہائی نے ان کا دل موہ لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اہلِ شیمابارا‘‘ اور فطرت میں ہم آہنگی ہے۔ ’’یہ ٹوکیوکے شور شرابے، تیزی، انسانی ہجوم اور افراتفری کے برعکس ایک پُرسکون جگہ ہے۔ یہاں انسانوں، پودوں اور جانوروں میں دوستی ہے۔ اس لیے سب پُرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ کیکو نے کہا۔ انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ یہاں آنا چاہتی تھیں۔ پر ٹوکیو کی مادہ پرست زندگی نے انہیں آنے نہ دیا۔ ’’پتا نہیں دنیا تو کہتی ہے کہ ہم نے ترقی کی ہے، پر اس ترقی نے ہم سے ہمارا سکون چھین لیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہم نے ترقی اور مادہ پرستی میں فرق نہیں کیا۔ آج ہمارا ملک خوشحال ہے، مگر ہم بغیر احساسات کے انسان ہیں جیسے روبوٹ۔ بس مشینی زندگی ہی بسر کررہے ہیں۔‘‘ کیکو نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ (جاری ہے)

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔