انسان ہزاروں سال سے اس مٹی پے زندگی سے نبرد آزما چلا آ رہا ہے۔ اربوں انسان آئے اور چلے گئے بلکہ جا رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہر چہرہ دوسرے سے الگ تھلگ، اپنی منفرد پہچان کے ساتھ جی رہا ہے اور جی چکا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ایسی خالق ہستی ہے جہاں ایسی نایاب تصاویر بن بن کر ڈھل رہی ہیں۔ اگر دنیا کی کسی مشین میں ایسا ہوتا، تو بس ایک سانچے یا ٹھاپے میں ڈھل ڈھل کر ایک ہی شکل کے انسان ہوتے جیسے کہ اکثر دوسری چیزیں ضاعت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بھانت بھانت کے چہرے، زرد، کالے، سفید، سرخ، لمبی ناک والے، چپٹی ناک والے۔ اب تو چہروں کی کتاب نے بھی ساری دنیا کو اپنی میں لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جب چاہیں جہاں سے چاہیں فیس بک پر چہروں کو ’’ایڈ‘‘ کرتے جائیں، تصویروں کی ایک دنیا بسائیں، شیئر کریں۔ کروڑوں چہروں کی اس برقی کتاب میں کوئی بھی چہرہ دوسرے کے مماثل نہیں۔ اس کتاب نے واقعی دنیا کے گلوبل ویلج ہونے کی تصویر کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ ہر چہرہ اپنا مکمل پروفائل لیے ہوا کے دوش پر سفر کرتا نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس اسکرین کی دہلیز پر جلوہ گر ہے۔
چہرہ باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ ایک کمپیوٹر مانیٹر کی طرح انسان کی باطنی سرگرمیوں، احساسات اور جذبات کو دوسرے چہروں کے سامنے’’ڈسپلے‘‘ کرتا ہے۔ بہ طورِ مثال آج آپ کسی وجہ سے اُداس ہیں۔ بیٹے نے آپ کی بات نہیں مانی یا تنخواہ کی تنگ دامانی سارے قرضہ جات اور ضروریات کو سمیٹنے سے قاصر رہی ہے، تو آپ کے دوست فوراً آپ کی باطنی حالت کو تاڑ جائیں گے اور رائے زنی کرتے ہوئے کہیں گے: ’’یار کن سوچوں میں ڈوبے ہوئے ہو؟‘‘،’’بھابھی سے لڑ کرآئے ہو؟‘‘ یا ’’بادام سے بھرے ہوئے ٹرک کو کہیں کھینچ مار کے آئے ہو؟‘‘

جب چاہیں جہاں سے چاہیں فیس بک پر چہروں کو ’’ایڈ‘‘ کرتے جائیں، تصویروں کی ایک دنیا بسائیں، شیئر کریں۔ کروڑوں چہروں کی اس برقی کتاب میں کوئی بھی چہرہ دوسرے کے مماثل نہیں۔

اللہ نے بھی اپنی آخری کتاب میں اسی چہرے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’مجرم لوگ اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔‘‘ جس کا ذکر راقم نے اپنے کالم ’’مجرم چہرے‘‘ میں کیا تھا۔
کچھ لوگ اپنے چہروں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند ہوتے ہیں۔ کسی کا اپنے تئیں خیال ہوتا ہے کہ میرا رنگ کچھ سیاہی مائل ہے۔ کوئی اپنے موٹے ہونٹوں کا رونا روتے ہوئے احساس کمتری کا مارا لوگوں سے الگ تھلگ سمٹا، سمٹایا اپنے ہی خول میں بند کڑھتا رہتا ہے۔ کسی منفی سوچ والے کی آنکھیں آئینے میں اپنی بھدی ناک کا ہر زاویے سے احاطہ کرتے ہوئے اسے کسی نا شپاتی سے تشبیہ دے رہی ہوتی ہیں۔
صنف نازک ’’والیاں‘‘ تو بے چاریاں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی سوچ سوچ کر دُبلی ہوتی جارہی ہیں۔
کسی کو اپنے چہرے پر چھائیوں اور مہاسوں کا غم ہے۔ کسی کو اپنے بالوں کی سست رفتار بڑھوتری کا دُکھ اَدھ موا کیے جا رہا ہے۔ اور ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے نت نئے پراڈکٹس بازار میں دھڑا دھڑ اُتر رہے ہیں۔ اشتہارات کی بھر مار ہے خاص کر ٹی وی نے تو اس اشتہار بازی کا ٹھیکا لے رکھا ہے جہاں ایک اداکارہ تو بار بار یہ کہتی سنی جاسکتی ہے:
’’لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں۔‘‘
کئی ’’صنفِ نازکائیں‘‘ ان کے دامِ فریب میں آکر اپنے چہروں کا حلیہ بگاڑ بیٹھی ہیں۔
ان "Facial Creams” میں اکثر "Steroids” کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی یہ خاصیت ہے کہ جو ایک بار ان کا عادی ہوا، تو پھر مر کر ہی ان کے مضر اثرات سے چھوٹے گا۔ کیوں کہ جوں ہی ان کریموں کا استعمال آپ نے چھوڑا۔ مرض دوبارہ اُس سے زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے۔
بات چہروں کی ہو رہی تھی اور ہم علاج معالجے کی طرف نکل گئے۔ ہر چہرے کی اپنی کہانی ہوتی ہے۔ اُس کی جھریوں میں ایک داستان رقم ہوتی ہے۔ چہرے کی کھلی کتاب میں ہمیں زندگی کے ماہ و سال کے اوراق نظر آتے ہیں۔ کائنات میں سب سے حسین صورت انسان ہی کی ہے، مگر اصل خوبصورتی تو باطن کی ہوتی ہے۔ جب تک من اُجلا ہو، تن کے اُجالے نصف اُجالے ہوتے ہیں۔ جیسے بِن خوشبو کے کاغذی پھول اور بس……!

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔