اگر کرکٹ کی اصطلاح میں ’’آل راؤنڈر‘‘ کہا جائے، تو زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بے چارہ اس وطن عزیز میں ہر گھر میں تقریباً پایا جاتا ہے۔ یہ وہ گھوڑا ہے جو سارا دن زندگی کی شاہراہ پر ہانپتا کانپتا بولایا بولایا سر پٹ بھاگ رہا ہوتا ہے۔ اُسے ایک پل آرام نہیں ہوتا۔ نہ ہی کوئی اُسے آرام کرنے دیتا ہے۔ وہ گھر کے بند نلکے سے اور گیس چھولہے کے لیک شدہ پایپ کی مرمت سے لے کر اپنے باس کی جھڑکیوں اور دفتر کی فایلوں کے انبار تک کو نپٹانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
میں ایک متوسط قسم کے باپ پر روشنی ڈالتے ہوئے اُس کی خصوصیات پر نوٹ لکھ رہا ہوں۔ کیوں کہ وہ ہر فنِ مولا قسم کی چیز ہے۔ اس لیے جب اُس کے ننھے شرارتی بیٹے بیٹی کی لڑائی کسی ہمجولی سے ہوتی ہے، تو وہ بھی انگلی اُٹھا کر کہتا ہے: "ذرا ٹھہرو، میں ابھی ابو کو بتاتا ہوں یا بتاتی ہوں۔” یعنی باپ بے چارہ پہلوان نما کوئی چیز بھی ہوتا ہے، جسے گلی محلے کی لڑائیوں میں کود کر ایک فریق کی حمایت بھی کرنا ہوگی۔ خواہ اُس فریق کے باپ کے ساتھ ایک خونی تصادم پر ہی بات ختم کیوں نہ ہو۔ صبح کا آغاز درجہ ذیل جملوں سے ہوتا ہے (مختلف گھروں میں) "چھوٹے کا سیریلیک پھر ختم ہوچکا ہے۔”، "سبزی کے ساتھ پیاز ضرور لانا کل بھی بھول گئے تھے۔”، "بچوں کی فیس ایک ہفتے سے جمع نہیں ہوئی، آج پھر بھاگے جا رہے ہو۔”، "واپسی پر جو فیتہ لائے تھے اُسے دوبارہ بدل دینا، میرے کپڑوں سے میچ نہیں کرتا۔ پرانے ڈیزاین کا ہے۔”، "میری ساس نے آنکھ کا آپریشن کیا ہے۔ آج وہاں جائیں گے چینی اور مرغ ساتھ لانا۔”
یہ سب آوازیں گھر کی دہلیز تک اس "بے چارے” کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ مجھے اشفاق احمد صاحب کی ایک تحریر یاد آ رہی ہے: "کیوں کہ اُس نے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں اپنے بچے کو پرورش کرتے ہوئے رکھا۔ بالکل ٹھیک ہے سر آنکھوں پر، مگر وہ باپ جو جون کی سخت گرمی میں چھابڑی سر پر رکھے سنگھاڑے بیچ رہا ہے اور گزشتہ چھے سالوں سے ایسا کر رہا ہے یا وہ باپ جو گرمیوں کی سلگتی آگ میں تندور کے کنارے بیٹھا آگ اور دھوئیں سے کھیل رہا ہے، آنکھیں جل رہی ہیں، ناک سے پانی بہہ رہا ہے۔ اُسے آپ کس کھو کھاتے میں ڈالیں گے؟”

ہر انسان دوسرے انسان کو اپنے سے آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، مگر باپ ہی وہ ہستی ہے جو چاہتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس سے بھی آگے بڑھے۔ (Photo: Pixabay)

 اس ہر فن مولا قسم کی مخلوق پر تو جتنا بھی رویا جائے کم ہے۔ بے چارہ پندرہ سال تک اپنے بچے کی تعلیمی فیس بھرتا رہتا ہے۔ اس کے علاج معالجے، کپڑے کی فکر میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس کا پھل بہت کم خوش قسمت باپوں کو ملتا ہے۔ ورنہ اکثر تو میں نے دیکھا ہے کہ یہی بیٹا بعد میں اُسے ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ اس دایم الحرکت انسان کی زندگی اُس ٹرین کی طرح ہوتی ہے جس کے انجن میں دھکتی آگ اُسے بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ دھکتی آگ معاشرے میں احساسِ ذمہ داری کی آگ ہے۔ ایک باپ ہونے کے احساس کا لاوا ہے جو اُس کے سینے میں دہکتا رہتا ہے۔ ایک جذبے کی آگ جو اپنی نسل کو آگے بڑھانے کا جذبہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کو کامیابی کی سب سے اونچی منزل پر دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کو اپنے سے آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، مگر باپ ہی وہ ہستی ہے جو چاہتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس سے بھی آگے بڑھے۔ اُس سے بڑے مقام کو چھوئے۔
باپ وہ سایہ ہوتا ہے جس کے نیچے بچے آرام و آسائش کی زندگی گزارتے ہیں۔ باپ اُس شمع کی طرح ہوتا ہے جو خود تو جل جاتا ہے مگر اپنی روشن کرنوں سے اپنے بچوں کی زندگیوں کو روشنی سے منور کردیتا ہے۔ زندگی کی تاریک راہوں کی خطرناک گھاٹیوں سے اُن کے بچانے کی اپنی سی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ قدر کریں اُس باپ کی جو بے لوث دوست بھی ہے، ہمدم بھی اور گھنا سایہ دار درخت بھی۔ محبتوں کے سائے سے بھرپور اس باپ کی قدر کریں۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنے پودے اور درخت کا پھل شاذو نادر ہی کھاتا ہے۔ جیسے اُس کے کھانے کے دن آتے ہیں، تو وہ بے چارہ یا تو فالج کی زد میں آکر بستر تک محدود ہوچکا ہوتا ہے یا آسودۂ خاک ہوکر دنیا کی بھاگ دوڑ سے بے نیاز ہوچکا ہوتا ہے۔ بہت قدر کریں اس قربانی دینے والے باپ کی، ساری زندگی بھر کے پیاسے دوڑنے والے باپ کی، اپنے منھ کا نوالہ اپنے بچے کے منھ میں ڈال دینے والے باپ کی، اُس باپ کی جو بڑھاپے میں اپنے نوجواں بیٹے یا بیٹی کی صحبت کا طلبگار ہوتا ہے، وہ باپ جو اور کچھ نہیں چاہتا مگر صرف چند لمحوں کا ساتھ چاہتا ہے۔
باپ جب موت کی چادر اُوڑھ لیتا ہے، تو دنیا کی ساری دولت اُسے واپس نہیں لاسکتی۔ کیوں کہ یہ وہ جنسِ نایاب ہے جو صرف ایک بار زندگی میں ملتی ہے اور پھر کبھی نہیں۔ کیوں کہ انسان صرف ایک بار جنم لیتا ہے صرف ایک بار۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔