کچھ دن پہلے سیدو شریف پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک نوجوان کو پکڑا۔ اس حوالہ سے پولیس کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ نوجوان کتا ذبح کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جب کہ پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم نے پہلے کتے کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا تھا۔ بعد ازاں اُس کے پاؤں کاٹ کر کھال نکالتے وقت اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ عین اسی وقت پولیس نے ’’میڈیا‘‘ کے نمائندوں کو بھی بلایا اور نوجوان کی اس ہلاک شدہ کتے کے ساتھ ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی۔ ویڈیو اَپ لوڈ ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا کہ اب سوات میں بھی لوگوں کو کتے کا گوشت کھلایا جانے لگا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ہنگامہ دیکھ کر بعض ٹی وی چینلوں نے بھی بلاتحقیق مذکورہ رپورٹ چلائی۔ ویڈیو میں دکھایا جانے والا ملزم مختلف سوالات کا کبھی ہاں اور کبھی ناں میں الٹے سیدھے جوابات دیتا دیکھا جاسکتا ہے۔
مذکورہ ویڈیو دیکھ کر مجھ سمیت ہر کوئی یہ سوچ رہا ہوگا کہ اس کیس کی انکوائری میں کسی قصاب یا ہوٹل کا نام کیوں نہیں آیا؟ کیوں کہ میڈیائی اور ’’سوشل میڈیائی رپورٹ‘‘ تو یہی کہتی ہے کہ ملزم بہت پہلے سے کتوں کو مار کر ان کے گوشت کا قیمہ اور بعض اوقات گوشت مختلف قصابان کو فروخت کرتا چلا آ رہا ہے۔
یہ شور جب ملزم کے خاندان والوں تک پہنچا ہوگا، تو اس کے قریبی رشتہ داروں اور محلہ داروں نے کیسا واویلا کیا ہوگا۔ اسی اثنا میں یہ بات بھی گردش کرنے لگی کہ ملزم تو گذشتہ پانچ سال سے ذہنی مریض ہے اور سیدو شریف میں ماہرِ نفسیات سے زیرِ علاج بھی ہے۔ ثبوت کے ساتھ ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر چلائی جا چکی ہے۔ اس کے بعد تو گویا ایک ہنگامہ سا کھڑا ہوگیا کہ پولیس نے صرف اپنی کارکردگی اور ’’سوشل میڈیائی صحافیوں‘‘ نے اپنے سوشل میڈیا کے صفحات کے لیے زیادہ سے زیادہ لایکس بنانے کے چکر میں ایک ذہنی مریض کو مجرم کے طور پر پیش کیا، اس کے خاندان والوں اور رشتہ داروں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اہلِ سوات کا اس ماہِ رمضان میں گوشت اور قیمہ جیسی نعمت سے دل اُکتا لیا۔ اب میں بھی گوشت اور قیمے کی طرف دیکھتا ہوں، تو ذکر شدہ ’’شخصیات‘‘ کی وجہ سے اُبکی سی آتی ہے۔
میری تو ان سطور کے ذریعے ڈی پی او صاحب سے گذارش ہے کہ وہ اس کیس کے لیے غیر جانب دار انکوائری ٹیم مقرر کریں اور اس کے ذریعے انکوائری کریں۔ اس بات کا پتا چلنا چاہیے کہ ملزم واقعی اہلِ سوات کو ایک عرصہ سے کتوں کا گوشت کھلاتا چلا آ رہا ہے یا یہ مذکورہ بالا چند ’’عقلِ کُل‘‘ ٹائپ پولیس اہلکار اور ’’فیس بکی صحافی‘‘ ہیں، جو گناہِ عظیم کا مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر ملزم ایسا کرتا چلا آیا ہے، تو اس نے کن کن قصابوں کو گوشت یا قیمہ فروخت کیا ہے؟ اور اگر ملزم واقعی ذہنی مریض ہے اور کئی سالوں سے زیرِ علاج ہے، تو جس ڈاکٹر کا وہ مریض ہے، اس سے تصدیق کرائی جائے۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ ہم میڈیا والے بغیر کسی تصدیق کے اگر ایسی چیزیں چلائیں گے، تو محاسبہ کے لیے بھی تیار رہیں گے۔ بھلے ہی آج ہمارے ہاتھ میں ایک عدد مائیک اور کیمرہ ہے اور ہم کسی بھی ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم دکھانے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر ڈرنا چاہیے اس دن سے جب اللہ کے دربار میں ہم پیش ہوں گے۔ یہ نہیں جاتے جاتے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ فیس بکی ٹائپ صحافیوں کے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق مرتب کرنا چاہیے، ورنہ پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ!

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔