اکیسویں صدی کا پہلا کوارٹر ختم ہونے کو، دنیا مریخ پہ کمند ڈالنے کے لیے تیار، چین اور امریکہ ہیکنگ کے میدان میں مدمقابل، ہمارا ازلی دشمن بھارت سیاسی و سفارتی محاذ پر تیزی سے آگے بڑھتا ہوا Big-4 میں شامل، سعودی عرب قدامت پسندی چھوڑنے پر مجبور، ایران انقلاب کی سختی سے لچک کی جانب گامزن، بشار الاسد پورے ملک کا پھر سے مختارِ کل، برطانیہ میں ججز کا کھلا نیم اینڈ شیم، کوریائی خطہ پھر سے شیر و شکر، بھارت میں چیف جسٹس کے مواخذے کی شروعات، اشرف غنی کا 130افسروں کو فارغ کرنے کا کام، روس کی پھر سے اونچی اڑان، برطانیہ نئے عمرانی معاہدے کی جانب گامزن، فرانس ماحولیاتی تبدیلی کے سدباب کا علمبردار، معیشت دنیا کی اولین ترجیح، روزانہ اربوں ڈالر کے معاہدے ۔
یہ ہوتی ہیں باقی ماندہ دنیا سے آنے والی خبریں اور ان کی ترجیحات۔ دوسری طرف وطن عزیز کی خبریں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والے حالات کی عکاس۔
وزیراعظم کا نوٹیفیکیشن ماتحت آفیسر کے ہاتھوں ریجکٹیڈ، چیف جسٹس کا مینٹل ہسپتال کا دورہ، آئے روز وزرا کو جھاڑ پلانے کا عمل، سٹاک ایکسچینج 400 پوائنٹس گر گیا، فارن اکاؤنٹس تنزلی کا شکار، ہیڈ لائنز چیف جسٹس کی ترجمان، خلائی مخلوق انتخابات میں سرگرم، انسانی حقوق سلب، صحافی قتل، دھمکیاں اور مار پٹائی، سی پیک جیسا تحفہ اتفاق رائے سے محروم، لائن آف کنٹرول پر آئے روز کشیدگی، واہگہ بارڈر پر بوٹوں کی اونچائی کا مقابلہ، 500ووٹوں والا شخص وزیراعلیٰ، راتوں رات پوری اسمبلی اغوا، اوپر سے آرڈر پر سینیٹ جیسا معتبر ادارہ یرغمال، مرضی کی رپورٹنگ ورنہ چینل بند، ہزاروں کے جلسے زنبیل میں غائب، واٹس ہیروں کے بعد واٹس اَپ ہیڈ لائنز، غداری سرٹیفکیٹس کی وافر مقدار میں ترسیل، کوئی گڈ تو کوئی بیڈ، عالمی محاذ پر کرتوت نمایاں، دوست ممالک بھی اب اعتبار کرنے سے گریزاں۔

ہم 1947ء سے لے کر آج تک نظام کا تعین کرنے میں ناکام ہیں. (Photo: dreamstime.com)

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ دنیا کدھر پہنچ گئی اور ہم کدھر رہ گئے ہیں۔ ہم 1947ء سے لے کر آج تک نظام کا تعین کرنے میں ناکام ہیں جس کے باعث درست سمت میں سفر تو کیا، چلنا ہی ممکن نہیں۔ آج بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے ہزاروں کے جلسے ایسے غائب کروائے جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی مغل سلطنت کا زمانہ ہو۔ میڈیا کو باقاعدہ گائیڈ کیا جاتا ہے کہ فلاں کو اتنا ائیر ٹائم دینا ہے جب کہ فلاں کا مکمل بلیک آؤٹ۔ خلاف ورزی کی صورت میں غائب کروانا اور چینل بند کروانا آئے روز کا معمول بن چکا ہے۔ یہ ہتھکنڈے تو ہر دور میں استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں اور اس کی سب سے بدترین مثال ضیا دور تھی کہ جب اخباروں میں خالی جگہیں سنسرشپ کے باعث دیکھنے کو ملتی تھیں۔ اُس دور میں سیکڑوں صحافیوں نے جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے لیکن آزادی صحافت کے لیے لڑتے رہے۔ آج ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی صحافی اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کو تیار نہیں اور جو چند ایک تیار بھی تھے، تو انہیں مختلف حیلوں سے چپ کروا دیا گیا ہے ۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے بقول مئی 2017ء سے لے کر اب تک صحافیوں پر 157 حملے کیے گئے ہیں۔ 50 سے زیادہ حملے تو دارالحکومت میں ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 40 فیصد کیسز میں لواحقین نے مقتدر حلقوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس کا اثر یہ کہ اب کوئی بھی صحافی مزاحمت کرنے سے قاصر ہے اور ٹی وی چینلز کی جانب سے سیلف سینسرشپ کی بدترین مثال قائم کی جا رہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ایک مبہم ہدایت پیمرا کو کیا جاری کی کہ ہر کسی کو ایک بہانہ مل گیا اور انہوں نے اپنی مرضی کی رپورٹنگ شروع کر دی۔ یہ عمل انتہائی تشویشناک صورتحال کو فروغ دے رہا ہے۔ گو کہ سچائی پر مبنی رپورٹنگ سے تاریخ بنائی جا سکتی ہے لیکن اب ہر کوئی اشاروں پر چل رہا ہے۔ اور یہ صورتحال آنے والے انتخابات کی ساکھ پر شدید قسم کے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔

مئی 2017ء سے لے کر اب تک صحافیوں پر 157 حملے کیے گئے ہیں۔ 50 سے زیادہ حملے تو دارالحکومت میں ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 40 فیصد کیسز میں لواحقین نے مقتدر حلقوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ (Photo: Mehr News Agency)

بقول فرازؔ
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
لیکن ماضی کے برعکس اس بار ایک مؤثر ہتھیار جو اس قوم کو حاصل ہے، وہ سوشل میڈیا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جس خبر کو دبانے کی کوشش کرے، وہ سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ چند سال پہلے انٹرنیٹ کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ پلیٹ فارم محرومی، ظلم، بندش اور اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف جدوجہد کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ ترکی میں جب شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، تو رجب طیب اردوان کے ایک انٹرنیٹ بیان نے واقعہ کی کایا ہی پلٹ دی۔ عرب اسپرنگ میں سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال ہم سب کے سامنے ہے۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ پر چلنے والی ایک مہم کی وجہ سے امریکی صدر ٹرمپ کو اپنا دورہ تک منسوخ کرنا پڑا۔ تو اسی لیے ہمیں بھی سوشل میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے اس صورتحال کو بدلنا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ اربابِ اقتدار جتنے بھی انگریز دور کے حربے اپنائیں، جتنا بھی اس ملک کو پستی میں رکھیں، جتنا بھی آنکھیں بند کرنے کا ڈراما رچائیں لیکن ہماری سوچ ترقی پسندانہ ہے۔ ہمیں صحیح صورتحال سے دنیا کو باخبر رکھنا ہوگا اور اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم دنیا کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی خوف کے اس کاروبار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی معیشت کو بنیادی ترجیح بنانا چاہتے ہیں۔ ہم بھی امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم بھی آزادی کے ساتھ جینا، سوچنا اور بولنا چاہتے ہیں۔ ایسا کریں گے، تو ایشین ٹائیگر بھی بنیں گے اور عزت بھی ملے گی۔ خدانخواستہ نہیں کریں گے، تو صومالیہ اور یوگنڈا کی مثالیں بھی موجود ہیں جن کی طرح ہم بھی کبھی ایک کے ہاتھ کو دیکھیں گے اور کبھی دوسرے کے منھ کو تکتے رہیں گے اور پھر ایسی قوموں کا ذلت کے سوا کوئی مقدر نہیں ہوتا۔ تو آئیں خود فیصلہ کریں کہ معاشی ٹائیگر بننا ہے یا پھر گدھوں کی طرح ایک دوسرے کو نوچنے کا سفر اس طرح جاری رہے گا۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔