امریکہ ایک دوسرے محاذ کے لیے پَر تول رہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے روسی سفارت خانے بند کروا کر سفارت کار نکال دیے ہیں۔ اس سے پہلے برطانیہ نے روسی سفارت خانے کے تیئس سفارت کار نکال دیے تھے۔ نتیجتاً روس نے امریکہ کے ساٹھ سفیر ملک بدر کیے۔ برطانیہ نے روسی ریاستی اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا۔ روس نے برطانیہ کے اعلان کو جارحانہ، ناقابلِ قبول اور بلاجواز قرار دیا۔ ردِعمل کے طور پر روس نے بھی برطانیہ کے پچاس سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔ اب خیال کیا جاتا ہے کہ ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کا طبل بج چکا ہے۔ امریکہ دھمکیوں کے علاوہ عملی اقدامات کرنے جا رہا ہے۔ وہی پرانا محاذِ جنگ ہے لیکن جنگ کرنے کا طریقۂ کار نیا ہوگا، یعنی یہ بلا واسط جنگ ہوگی۔ اصل دشمن کوئی اور ہوگا اور جنگ کوئی اور لڑ رہا ہوگا۔ خون کی ہولی کے لیے انسانی سروں کی قیمت طے کی جا رہی ہے۔ افغان اور پشتونوں کے لیے جنگ وجدل کی خاطر نیا پلیٹ فارم تیار کیا جا چکا ہے۔
اس سارے پس منظر کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ اس میں افغانستان اور پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات کی پوزیشن کیا ہوگی؟
ہم سب کو یاد ہوگا کہ سوویت یونین کے برخلاف امریکہ کے ایما اور سازش پر کھربوں ڈالروں کے عوض مجاہدین کو جہادی بیانیہ حوالہ ہوا اور انہیں اسلحہ سے لیس کرکے سرخ روس اشتراکی سوویت اتحاد کو گوریلا جنگ کے ذریعے توڑا گیا۔ اس کے بعد کھنڈر نما افغانستان اور رفیوجیز کو پاکستان کے پلے بے سر و سامان باندھا گیا اور مجاہدین کو بھی بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں وار لارڈز، مجاہدین اور قبائلی ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہوگئے۔
جنگ کے خاتمے پر یوں سمجھ لیں کہ امریکہ کا کام نکلتے ہی وہ یہاں سے دبے پاؤں نکل گیا۔ پھر اس کو مجاہدین یاد آئے اور نہ پاکستان اور افغانستان کی قربانیاں۔
’’امریکن کلاسیفائڈ‘‘ میں مذکور ہے کہ امریکہ سوویت یونین کا شیرازہ نہیں بکھیرنا چاہتا تھا بلکہ امریکہ کی نظریں وسطی ایشیائی معدنی ذخائر  پر تھیں، مگر ساری حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی۔ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر افراد پاکستان میں رِہ گئے۔ بعد میں طالبان کی حکومت امریکہ ہی کی آشیرباد اور پاکستان کی تائید سے بنائی گئی۔ القاعدہ اور دیگر مجاہدین مذکورہ کلاسیفائیڈ کے مطابق ان کے پلانٹڈ تھے۔ جب سرد جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ختم ہوئی، تو امریکہ کے اصل اہداف حاصل نہیں ہوئے اور یہ ان کو منظور نہیں تھا۔ مطلب وہ وسطی ایشیائی ریاستیں، جن میں تیل اور تانبے کے ذخائر تھے، وہ الگ مملکتیں بن گئیں۔ یوں امریکہ کے اہداف اور مقاصد ناکام ہوگئے۔ اس لیے مذکورہ اہداف کو حاصل کرنا امریکہ کے لیے ناگزیر ہوگیا، جس کے لیے ’’نائن الیون‘‘ کا ڈراما رچایا گیا۔

ٹون ٹاورز سے جہاز ٹکرانے کے وقت آگ کے شعلے اور دھواں ایک ساتھ اٹھ رہے ہیں۔

تین ہزار یہودی اس دن ٹون ٹاؤرز (Twin Towers) میں غیر حاضر تھے۔ واقعہ کی ذمہ داری مبینہ طور پر القاعدہ کے سر تھوپ دی گئی۔ القاعدہ کے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے امریکن انتظامیہ نے افغانستان کے امیر ملا عمر کو کہا۔ امیر ملا عمر نے اسامہ کو حوالہ کرنے سے صاف انکار کیا، جس کی وجہ سے اتحادی افواج اور پاکستان کو ساتھ ملاکر افغانستان میں تباہی کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی۔ بی باون فوجی جہازوں سے ’’تورا بورا‘‘ اور دوسری جگہو ں پر بمباری کی گئی۔ پاکستان کے شمسی ائیر بیس سے ہزاروں جنگی پروازیں اُڑیں۔
پاکستان نے امریکہ کے دھونس دباؤ پر دہشت گردی کی جنگ شروع کی۔ امریکہ کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں پاکستانی مجاہدین بدظن ہوگئے اور اپنی ہی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھالئے، جن کو بعد میں "دہشت گرد” قرار دیا گیا۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والی گوریلا جنگ شروع ہوئی۔ امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور مجاہدین دونوں کو مارنے کے لیے سیکڑوں ڈرون حملے کروائے۔ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مخالف دہشت گرد اپنی ہی فوج اور عوام پر خودکش دھماکے کرنے لگے۔ قبائلی علاقہ جات اور سوات میں آپریشن شروع کر دیا گیا اور تاحال جاری ہے۔ مطلب جنگ کی سی صورتحال ہے۔ یوں امریکہ افغانستان پر قابض ہوگیا اور بعد میں برائے نام اصلاحی اقدامات کیے گئے۔
مبینہ طور پر امریکہ نے پاکستان کو سترہ بلین ڈالر دیے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم نے تینتیس بلین ڈالر مذکورہ جنگ میں کھپائے ہیں جب کہ تجارتی خسارہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ نیٹو اتحادی افواج کو سامانِ رسد کے لیے پاکستان کی سڑکیں اور سیکورٹی فراہم کی گئی۔
اس جنگ کی وجہ سے غربت اور افراتفری میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ افغانستان کے لاکھوں افراد کو مار دیا گیا۔ لاکھوں بے گھر ہوئے اور لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ طالبان پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اب بھی افغانستان کے بیشتر علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے روس پر طالبان کے مالی اور اسلحہ کے سپورٹ کا الزام لگا دیا ہے۔ اس سے پہلے کئی مرتبہ پاکستان پر بھی یہی الزامات لگائے جا چکے ہیں۔ کسی حد تک چین کو بھی ملوث کیا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ روس اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ دوسری طرف چین کا معاشی طور پر گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس تمام تر صورتحال میں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس جنگ میں کسی کے بھی ساتھ کھڑا ہونا پاکستان کی بقا اور سالمیت پر وار کرنے کے برابر ہوگا۔پاکستان آزادی سے لے کر اب تک امریکہ کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اب نئی صف بندی کسی اور کے ساتھ کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ بھی سودا فائدے کا نہ ہوا، الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں اور پوری دنیا میں پاکستانی قوم بطورِ دہشت گرد مشہور ہوئی۔ کیوں کہ اگر روس امریکہ کو دشمن مانتا ہے، تو پاکستان کو بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا۔ حکمتِ عملی یہ ہے کہ پہلے بڑے کے ساتھ نمٹا جائے۔ بعد ازاں چھوٹوں کو زیر کرنا آسان ہوگا۔ روس کسی مخالف کو نہیں چھوڑے گا۔ "کافر روس” کو مسلمان بنانے کے لیے ذہن سازی ہو رہی ہے۔ اب امریکہ کو زیر کرنے کے لیے اسے کافر گردان کر کام نکالیں گے۔

امریکہ کے ساتھ سودا فائدے کا نہ ہوا، الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں. (Photo: india.com)

آخری تجزیے کے مطابق (خدانخواستہ) جنگ کا اکھاڑا دوبارہ پاکستان اور افغانستان کے علاقے ہی ہوگا، جس سے پاکستان کے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات شدید متاثر ہوں گے۔ دراصل یہ وسائل اور منڈی کی جنگ ہے۔ اس لیے اس کو سوچ سمجھ کر لڑنا ہوگا۔ میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کسی طور متحمل نہیں ہے کہ وہ ہاتھیوں کی جنگ میں کودے۔ نتیجہ کچلا جانا ہی ہوگا۔
جنگ سے پرہیز ہی میں بہتری ہوگی، کیوں کہ جنگیں ترقی پذیر ممالک کو کبھی راس نہیں آئی ہیں۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔