ماضئی قریب میں کولمبو شدید بدامنی اور قتل و غارت گری کی دردناک صورتِ حال سے گزرا ہے۔ وہاں کے سنجیدہ سیاست دانوں اور حکمرانوں نے مل کر اس دردِ سر سے تین سال کے عرصہ میں نجات پائی۔ اس کامیابی پر وہ مباکباد کے مستحق ہیں۔ کاش، وہ یہاں آ کر ہم یتیموں کو بھی اس عفریت سے نجات دلائیں۔ ہماری طرف سے ان کو آنے کی دعوت ہے۔ یہاں آنے کے لیے ویزہ کیا، پاسپورٹ کیا، شناختی کارڈ کیا، نام کی بھی ضرورت نہیں۔ جس کا جہاں جی چاہے، پھیل جائے۔ اس کو کسی نے کچھ بھی نہیں کہنا، بلکہ ضرورت پڑنے پر وہ آسان قسط وار ڈیل پر ہر قسم کے شناختی ڈاکومنٹس بھی بنوا سکتا ہے۔
تو صاحبو، جہاز کی یہ فلائٹ کولمبو سے کراچی کی تھی۔ کولمبو ایک ایسے ملک کا دارالخلافہ ہے جسے لوگ کبھی ’’سیلون‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ اگر آپ نے سیلون چائے کا نام سنا ہے، تو ٹھیک ہے۔ آپ اس کا نیا نام بھی جان گئے ہوں گے۔ جس نے سیلون چائے کا نام نہیں سنا، تو مجھے خدشہ ہے کہ وہ ابھی جمیا ہی نہیں۔ پیدا ہونے کے لیے صرف لاہور کا دیدار ضروری نہیں۔ لگ بھگ سوا دو کروڑ کی آبادی والا یہ ملک کوئی پینسٹھ ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ انڈیا اور مالدیپ اس کے ہمسائے ہیں۔ جس طرح ہم گروہوں، گروپوں، قبیلوں اور پارٹیوں وغیرہ وغیرہ میں کٹ بٹ گئے ہیں۔ وہ بھی ایسے ہی بٹے ہیں۔ یہاں کی آبادی میں بدھ مت کے پیروکار سب سے زیادہ یعنی پچھتر فی صد تک ہیں۔ دوسرے نمبر پر تامل ہیں جو سترہ اور مسلمانوں کی شرح چھے فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ عیسائی اور دیگر عقاید والے گنتی میں کم ہوں گے، لیکن اہمیت میں بالکل نہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں اُن کی ایک ’’وکری پہچان‘‘ ہے۔ مساجد میں مولویوں، گرو دواروں میں ’’گرو‘‘ اور مندروں میں ’’مودِیوں‘‘ کی ’’بیسیوں انگلیاں حلوے میں ہوتی ہیں۔” یاد رہے، مودی کا لفظ وقتی طور پر ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے وزیر اعظم کے نام سے مستعار لیا گیا ہے۔

سری لنکا کے دارالخلافہ کولمبو کا ایک دلفریب منظر۔ (Photo: srilanka-hotels.ws)

کئی جگہوں میں مسجد، مندر، چرچ، گرو دوارے وغیرہ آس پاس واقع ہیں، لیکن ایک دوسرے کے معاملوں میں دخل اندازی کے رجحانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بھولا بسرا سیلون پاکستان کے ساتھ پیدا ہوا۔ گویا پاکستان کاجڑواں بھائی ہے، لیکن زندگی کے کٹھن دوڑ میں وہ پلا بڑھا اور پاکستان کو اسی طرح بچہ ہی رہنے دیا گیا۔ اس کو آزادی ہم سے کوئی ایک سو ستر دن بعد یعنی چار فروری انیس سو اڑتالیس کو ملی۔ وہ بھی ہماری طرح ’’گوروں‘‘ سے۔ ان کے دیہی علاقوں میں محرومیاں اور غربت اب بھی موجود ہے، لیکن اتنے جوبن پر نہیں جتنے جوبن پر پاکستان میں ہے۔ بلکہ ہم تو ریورس کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ بہت سارے حوالوں سے وہ ہم سے بہ درجہا بہتر ہیں۔ وہ اب یہ ایک ماڈل ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود میں اسٹیٹ کی مشینری کافی حد تک سنجیدہ، فیئر اور ایکٹیو ہے۔ فری تعلیم و صحت کے منصوبے جاری ہیں، کم خرچ بالا نشین ٹرانسپورٹ کی سہولیات عوام کو میسر ہیں۔ اُنیس سو بہتّر میں اس کا نام تبدیل کرکے ڈیموکریٹک سوشلسٹ ریپبلک آف سری لنکا رکھا گیا۔ لنکا تو شاید جزیرے کو کہتے ہیں اور ’’سری‘‘ کہتے ہیں نوازنے کو یعنی ’’ بلیسنگ۔‘‘ آپ اس کو نعمتوں سے نوازا ہوا جزیرہ کہہ سکتے ہیں۔ بندرا نائیکے اُنیس سو ساٹھ میں اس ملک کی وزیر اعظم بنی، جس کو پوری دنیا میں کسی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ملک کی پاکستان کے ساتھ کئی قدریں مشترک اور کئی غیر مشترک ہیں۔ غیر مشترک قدروں میں ایک یہ ہے کہ وہاں پر غربت کے باوجود خواندگی کی شرح بانوے فی صد ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جب کہ خواندگی کے شعبہ میں ابھی ہم چارپائے کے درجے میں ہیں، تو شرح کا کیا حال بتائیں جو ’’خواندے‘‘ ہیں، ان کا احوال سنیں تو شرم آ جائے۔ نمونہ کے طور پر ہمارے ایک بے سر و ساماں سرکاری اسکول کی جماعت ہشتم کے طالب علم "طاہر خان بہ قلمِ خود” کا تحریر کیا ہوا وہ جامع تبصرہ ملاحظہ فرمائیں جو انھوں نے سائنس کے ٹیسٹ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے جو لیک ہوتے ہوتے ’’وکی لیک‘‘ کے بجائے فیس بک پر پیسٹ ہوگیا ہے۔ اس طالبِ علم کے لکھے ہوئے جواب سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس پر خواندگی کا اثر کتنا اور ماحول کا کتنا ہے۔ ذیل میں وہ سوال و جواب کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر ملاحظہ فرمائیں اور اپنے ملک کے ’’خواندہ گاں‘‘ کے حال پر عش عش کرتے جائیں۔ یہ بات ’’بارِ خاطر‘‘ رہے کہ مذکورہ طالبِ علم نو سال کی’’طالبانہ‘‘ تگ و دو کے بعد اس لیول تک پہنچا ہے۔
سوال:۔ انسانی دل پر ایک نوٹ لکھیں اور ڈائی گرام بنا کر وضاحت کریں۔
جواب:۔ ہم سب انسان ہیں۔ ہمارا دل اللہ نے پیدا کیا ہے اور میرا دل بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔ ہم دل کی وجہ سے سانس چلاتے ہیں۔ کھاتے ہیں۔ پیتے ہیں۔ بھاگتے ہیں اور اسی وجہ سے دل پر بہت بوجھ ہوتا ہے۔ اس کے اندر پیار ہوتا ہے۔ دل بہت ضروری چیز ہے۔ دل کے بہت گانے ہیں جیسے دل دل پاکستان۔ دل کا کیا کریں صاحب۔ دل لگایا میں نے پیار کرکے۔ جس میں ’’دل تو بچہ ہے جی‘‘ گانا سرِ فہرست ہے۔ دل دل پاکستان گانا جنید جمشید نے گایا ہے۔
یہ طویل نوٹ جنید جمشید کے گانے پر آکر ختم اور سوال کے مطابق ڈائی گرام کا مغز لیوا کام شروع ہوتا ہے۔ اس ’’علم لیوا‘‘ نوٹ کے بعد سوال کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے، تو آگے رنگین سیاہی سے لکھا ہے ’’دل کا ڈائیگرام‘‘۔ پھر اردو کے پانچ کا بہت بڑا ہندسہ بنایا (کھینچا) گیا ہے۔ اس ہندسے کے بیچ لفظ ’’دل‘‘ بڑا واضح لکھا نظر آ رہا ہے۔ اس’’ دل‘‘ سے بیرونِ دل دو نالیاں بھی لٹکائی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ ایک نالی کے کونے میں تیر کا نشان بنایاہے۔ اس کے ساتھ لکھا ہے۔ ’’ پہلی خون کی نالی‘‘ دوسری نالی کے ساتھ لکھا ہوا درج ہے ’’دوسری خون کی نالی۔‘‘
اس پیپر کو سرخ سیاہی سے چیک کرنے کے بعد اُستادِ محترم نے باقاعدہ طور پر اپنے مبارک دستخط ثبت کیے ہیں، تاکہ سند رہے۔ دستخط کے نیچے پانچ مارچ دو ہزار تیرہ کی تاریخ درج ہے۔ سوائے ابتدائی ایک فقرہ کے علاوہ پورے نوٹ کو جگہ جگہ استاد صاحب نے سرخ پن سے کراس کیا ہے اور اسٹوڈنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’برائے کرم، اپنے والدین کو کل اپنے ساتھ اسکول لے آنا۔‘‘
کل والدین آئے ہوں گے یا نہیں اور استاد صاحب نے ان کو کیا کہا ہوگا، اس کا پتا نہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے اس ’’خواندہ قوم‘‘ کی آٹھویں کلاس کی سرکار کے ’’مدرسے‘‘ کے طالب علم کی۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم تعلیم میں کس انتہا تک ’’سیریس‘‘ ہیں؟ خواندگی کے ’’حسنِ شرح‘‘ پر مزید غور آپ خود کریں۔ ہم میں تو آگے تاب نہیں، اس پر بات کرنے کی۔
بات ہو رہی تھی ہماری اور سری لنکا کی اقدار کی۔ وہاں کے سیاست دانوں نے مشکل وقتوں میں بھی اپنی جمہوری روایات برقرار رکھیں، جو بہت کم ترقی پزیر ممالک کا خاصا ہے۔ یہاں پر انیس سو اڑتالیس کے بعد باقاعدہ طور پر جمہوری روایات کے مطابق حکومتیں چلتی رہی ہیں، جس پر وہاں کے باوقار اور زیرک سیاستدان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہم ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو ہیں۔ پاکستان میں تو باریاں چلتی ہیں، لیکن جمہوری حکومت کی باری میں بھی مرضی "غیر جمہوری قوتوں” کی چلتی ہے۔ یہاں جمہوریت کو کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ مضبوط لیڈر شپ کا شدید فقدان ہے۔ سوائے چند ایک کے، ہمارے اکثر سیاست دانوں اور ’’فیتوں‘‘ نے تو پاکستان کو ’’ کوڑا دان‘‘ بنایا ہے۔ ’’سیاسیے‘‘ تو جمہوریت کے خلاف بھی کوئی فیصلہ کرتے ہیں، تو کڑوا گھونٹ پی کر کرتے ہیں اور حق میں کرتے ہیں، تو بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ کڑوا گھونٹ پینے کے بجائے استعفا دے اور آرام سے گھر بیٹھ جائے۔ یہاں تو ہر طرف صرف ایک دوڑ ہے، ایک نہ بجھنی والی پیاس ہے، دولت، شہرت اور طاقت کے حصول کی۔
’’آبِ گم‘‘ میں مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ ایک پیاس تو وہ ہوتی ہے جو گھونٹ دو گھونٹ پانی سے بجھ جاتی ہے۔ اور ایک تونس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو، پیاس اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے۔ ہر گھونٹ کے بعد زبان پر کانٹے پڑتے چلے جاتے ہیں۔ آدمی آدمی پر منحصر ہے۔ کسی کو کایا موہ، کسی کو زر، زمین کی پیاس لگتی ہے۔ کسی کو علم اور شہرت کی۔ کسی کو خدا کے بندوں پر خدائی کی اور کسی کو عورت کی پیاس ہے جو بے تحاشا لگے چلی جاتی ہے۔ یہ پیاس دریاؤں، بادلوں اور گلیشئروں کو نگل جاتی ہے اور سیراب نہیں ہوتی۔ انسان کو دریا دریا، سراب لیے پھرتی ہے اوربجھائے نہیں بجھتی۔ العطش!! العطش! پھر ہوتے ہوتے یہ اَن بجھ پیاس خود انسان ہی کو پگھلا کے پی جاتی ہے۔‘‘ نااُمیدی بہرحال کفر ہے، کیوں کہ
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
(جاری ہے)

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔