ہماری آبائی روایات اپنے اندر بے پناہ حکمت لیے ہوئی ہیں مگر عالمگیریت (گلوبلایزیشن) کی اس عفریت نے ’’مقامی اور آبائی‘‘ روایات کو ’’تہذیب‘‘ کے دلفریب بیانیے سے خیرہ کر دیا ہے اور آج کے جدید انسان کو اس کی اپنی روایتی حکمت کے چشموں سے دور کردیا ہے۔ ایسا جدید مشینی استعماری قوتوں نے اپنی معاشی بقا کے لیے کیا ہے۔ اس بنیادی معاشی کشمکشوں نے نئے روپ دھار لیے ہیں اور اسے بڑی چاشنی سے نظریاتی کشمکشوں میں تبدیل کرنے میں معیشت کے وہ عالمی اجارہ دار کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
سابق سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بیچ کئی دہائیوں پر محیط سرد جنگ جب بظاہر اپنے نظریاتی مرحلہ سے نکل کر عسکری مرحلہ میں داخل ہوئی، تو کئی عالمی دانشوروں نے اسے ’’نظریہ کے خاتمہ‘‘ End of Ideology سے تعبیر کیا۔ ان کے نزدیک قدیم نظریاتی کشمکش اپنی موت آپ مر گئی اور اس کی جگہ عسکری کشمکش نے لے لی۔ پھر جب سن اسّی کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین بکھر گیا، تو امریکی دفاع سے منسلک سیاسی دانشوروں نے اسے ’’تاریخ کے خاتمہ‘‘ End of History سے تعبیر کیا۔ ان کے نزدیک دنیا میں ایک ہی نظریہ اور نظام کامیاب ہوگیا اور یوں صدیوں پرانی نظریاتی کشمکشیں دم توڑ گئیں۔ اس دوران میں ان دانشوروں کو اندازہ نہیں تھا کہ استعماری قوتیں اپنے گماشتوں کے ذریعے ہمہ تن ’’لہو گرم رکھنے‘‘ کا کوئی بہانہ تراش رہی ہیں۔
سوویت یونین کے شیرازے کے بکھرنے کے ساتھ ہی ایک امریکی سیاسی سائنسدان سموئل ہنٹینگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ Clash of civilizations کا تصور پیش کیا اور اپنے اس نظریہ کے لیے کئی اشارے دئیے۔ اس نظریہ کو استعاری میڈیا نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور یوں ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا تصور چہار سو پھیل گیا یا ایک بار پھر دنیا سیاسی طور پر’’پس جدیدیت‘‘ post-modernity سے واپس ’’جدیدیت‘‘ modernity کی جانب روانہ ہوگئی۔
جدیدیت کی رو سے طاقتور اقوام مہذب ہیں جب کہ کم زور وحشی۔ لہٰذا یہ مہذب اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وحشی اقوام کو مہذب بنائیں اور ایسا کرنے کے لیے خواہ ان اقوام کو زیر کرنا پڑے تو کرلیا جائے۔
نو آبادیت colonialism اسی تصور کا نتیجہ تھی اور اب اس کی ہیئت استعماریت imperialism کی ہے۔


جدیدیت کی رو سے طاقتور اقوام مہذب ہیں جب کہ کمزور وحشی۔ (Photo: www.forbesmiddleeast.com)

گو یورپ اور امریکہ میں بعض حلقے جدیدت کی اس عفریت پر مسلسل بحث کر رہے تھے، مگر باقی دنیا میں کوئی مؤثر آواز نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ دنیا میں تصادم کے اس بیانیہ کو مغربی ملکوں میں قتل و بربریت کا کوئی واقعہ بار بار ابھار کر سامنے لاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ایک غیر ذمہ دار اور بیہودہ فرنگی میگزین ’’شارلی ہیبڈو‘‘ سے منسلک کئی کارٹونسٹس کا قتل ہے۔ اس واقعہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کو ایک بار پھر موضوع بحث بنا لیا۔ اس غیر اہم میگزین کی پوری اشاعت قتل کے اس واقعہ سے پہلے صرف پینتالیس ہزار تھی اور اب ان حملوں کے بعد اس کی اشاعت ستر لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ یوں ایک بار پھر استعماری معیشت نے میدان مار لیا اور اس کشمکش سے ہمیشہ کی طرح خوب معاشی فایدہ حاصل کیا۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نظریات سازوں نے سوویت یونین اور امریکی کشمکش کے دوران میں ’’اہلِ کتاب‘‘ کا ساتھ دیا۔ وہ ہمیں یا دنیا کو کوئی متبادل نظریہ یا نظام نہ دے سکے بلکہ ’’اہلِ کتاب‘‘ کے پلڑے میں گر گئے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ چون کہ دونوں ’’جدیدت‘‘ میں جی رہے تھے۔ اس لیے ان کا ملاپ فطری تھا۔
اب جب کہ سوویت یونین نہیں رہا، تو یہ سابقہ حلیف، حریف بن گئے یا بنا دیے گئے اور یوں ’’سیاسی طاقت‘‘ جو کہ معاشی طاقت کے لیے لازم ہے، کے حصول میں جُت گئے۔ وہ ’’تہذیب کا بیانیہ‘‘ استعمال کرنے لگے اور یہ ’’مذہب کے بیانیے‘‘ کو۔ ان کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی کے لیے وہاں شارلی ہیبڈو جیسے شاطر اور بے وقوف ہمیشہ موجود رہے اور یہاں گرتی حکومتیں، فرسودہ انتظامیہ اور بے پناہ بدعنوانی ان کے ’’جنتِ گم گشتہ‘‘ کے وعدے کو پروان چڑھاتی رہیں۔ انھی لوگوں نے مغرب اور اسلام کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔ ایسا جدیدت کے شکار ان دونوں فریقین نے سیاسی اور معاشی فایدے کے لیے کیا، مگر مسلم ریاستوں میں جب یہی لوگ سیاسی طاقت کے حصول میں رائے شماری کے طریقوں سے کامیاب نہ ہوسکے، تو انھوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے ہر اقدام کو عوام میں مقبول بنانے یا پھر عوام کو ابہام میں رکھنے کے لیے انھوں نے اپنے ہی حلیفوں کو دشمن پیش کرکے ’’اسلام خطرہ میں ہے‘‘ اور ’’ساری دنیا اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہے‘‘ جیسے جذباتی نعرے استعمال کیے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کی ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ والی منطق کو اس تناظر میں دیکھا جائے، تو آسانی سے سمجھ آتی ہے۔

ہمارے نظریات سازوں نے سوویت یونین اور امریکی کشمکش کے دوران میں ’’اہلِ کتاب‘‘ کا ساتھ دیا۔ (Photo: canal2.md)

تہذیبوں کے اس تصادم میں دونوں اطراف کے ’’جدیدیت پسند‘‘ سرگرم ہیں۔ ہم اب بھی اس مغالطہ میں مبتلا ہیں کہ ہمارے یہاں کے یہ انتہا پسند مذہبی ہیں اور جدیدیت (جسے ہم عوامی سطح پر صرف مغرب تک محدود کرتے ہیں اور زندگی بسر کرنے کے چند محدود طریقوں پر محیط گردانتے ہیں) سے بہت دور ہیں۔
ایسا ہر گز نہیں ہے۔ دونوں طرف کے یہ انتہا پسند ابھی تک ’’پس جدیدیت (post modernity) کی فکر میں داخل نہیں ہوئے۔ دونوں طرف کے یہ لوگ اپنے اپنے نظریات اور نظاموں کو نہ صرف مکمل بلکہ حرفِ آخر سمجھتے ہیں، یعنی دونوں سمجھتے ہیں کہ جو ان کا نظریہ یا طور طریقہ ہے، وہ دنیا میں نہ صرف اعلیٰ ترین بلکہ ناقابل تغیر بھی ہے۔ جب کہ پس جدیدیت کی فکر ’’تکثیریت‘‘ pluralism پر یقین رکھتی ہے اور تمام اقوام کے نظریات، روایات اور ثقافتوں کو انسانی سمجھ کر قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ان دونوں گروہوں نے پوری دنیا کو یرغمال بنایا ہوا ہے مگر مسلم معاشرے زیادہ گھاٹے میں ہیں۔ اِدھر کے انتہا پسند سیاسی طاقت کے حصول کے لیے اپنوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں جب کہ اُدھر کے وہ انتہا پسند اپنے ملکوں میں سیاسی ہائے نظام کے استحکام اور خوش حالی کی وجہ سے ایسا کچھ نہیں کرسکتے۔
نقصان انسانوں کا ہی ہو رہا ہے، خون انسانوں کا ہی بہایا جا رہا ہے اور زندگی انسانوں کی ہی زنداں بن گئی ہے۔
دونوں اطراف کے ان انتہا پسندوں نے تصادم کے اس بیانیے کو سنبھالا ہوا ہے اور بڑی کامیابی سے اسے پروان چڑھا رہے ہیں۔
ایسے میں مکالمہ کی اگر گنجایش نہیں رہی، تو ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ پس اس جدید دنیا میں دونوں طرف کے یہ انتہا پسند پوری دنیا کو زیر تو اگر نہیں کرسکتے لیکن اس کا امن مسلسل تباہ ضرور کرسکتے ہیں۔
ہماری ’’کلتوری روایات‘‘ میں کسی بھی تنازعہ کے حل کے لیے آخر دم تک جرگوں اور یَرَکوں مکالموں کو واحد ذریعہ گردانا جاتا ہے۔ اسی مقامی اور آبائی حکمت کو بروئے کار لاکر عالمی تنازعات کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔
ایسے میں مکالمہ کی ضرورت ہر سطح پر مزید بڑھ جاتی ہے اور اسی سے ہی امن آسکتا ہے۔ ہمارے لکھاریوں اور دانش وروں کو مکالمہ پر زور دینا ہے اور ایسے کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا ہے جسے یہ دونوں فریقین آگے بڑھاتے ہیں۔

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔