اِس سال وادئی سوات میں بہار کی شروعات سبزے کی بجائے سُرخ رنگوں سے ہوئی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سُرخ جھنڈوں، سرخ بینروں، سرخ پوسٹروں، قدِ آدم تصاویر، بِل بورڈوں اور فلکسوں کے ذریعے بہار کو خوش آمدید کہا گیا۔ گیارہ مارچ تک سُرخی کا یہ عمل اپنے انتہا تک پہنچ گیا۔ اُس دن جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ سرخ کپڑے کے لاتعداد دروازے بھی لگائے گئے۔ اِن دروازوں سے دو بڑے لیڈروں اسفندیار خان اور حیدر خان ہوتی نے گزر کر گراسی گراؤنڈ تک پہنچنا تھا، جہاں عوامی نیشنل پارٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ جگہ جگہ ٹریفک بلاک رہی۔ لوگوں کی ٹولیاں سُرخ ٹوپیوں، رومالوں، جھنڈوں اور بعض ڈنڈوں سے لیس سڑک کنارے کھڑی رہیں۔ اجتماع تک’’ پِک اینڈ ڈراپ سروسز‘‘ کی فراہمی کے لیے’’فی سبیلِ اللہ‘‘ ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی میسر تھی۔ مینگورہ شہر ’’خوب صورت دلہن کی طرح سجا ہوا‘‘ توخیر نہیں کہہ سکتے بلکہ بوڑھے دلہا میاں کی طرح سجایا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ شہر تو اب ایک بگڑا ہوا، بے ترتیب اور بے ہنگم شہر کا وہی ماڈل بن چکا ہے جس کی عوامی نیشنل پارٹی کی پچھلی حکومت نے بار بار سوتے جاگتے بشارت فرمائی تھی۔اور جس کو ترقی دینے کے لیے بیرونی دنیا کے’’ با وقوف‘‘ حکمرانوں نے اربوں روپے کے’’چندے‘‘ دیے تھے۔ جلسے سے پہلے ہی کئی چینلوں پر اس کی تشہیر اور دیگر تفصیلات کے اعلانات خبروں اور اشتہارات کے ذریعے کی گئی۔ جلسے کے بعد مزید اشتہارات کی صورت میں ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق میڈیا کا پیٹ بھروایا گیا۔ کسی سیاسی پارٹی کے اتنے بڑے پیمانے پر مال و دولت بہانے کے بدلے’’شو آف پاور‘‘ کی بھوک یا شوق پہلی دفعہ دیکھا۔ جلسے میں دیگر کے علاوہ اسفندیارخان اور ااُن کے برخوردار حیدر خان ہوتی صاحب نے تقریریں کیں۔ اگلے دن دونوں رہنماؤں کے حوالے سے یہ سرخیاں علاقائی اخباروں کی زینت بنیں: ’’اگر سی پیک میں حصہ نہ دیا گیا، تو اُس کو بند کر دیں گے۔‘‘ عوام کا حافظہ ٹھیک ہو، تو اُنہیں یاد ہو گا کہ یہ تو پچھلے تیس سال سے بجلی کا بٹن پشاور میں لانے والی دھمکی کی طرح ہے جو ابھی تک تشنہ کام ہے۔ ہوتی صاحب کی طرف سے یاد دلایا گیا کہ ’’ہم نے سوات کو یونیورسٹی بھی دی۔‘‘ لیکن یہ نہیں بتایاکہ اس کی اپنی کوئی بلڈنگ ہے نہ اس سے یہاں کے بے روزگاروں کو روزگار کے کوئی خاص مواقع ہی ملے۔ جو بھی مواقع ملے وہ زیادہ ترسوات سے باہر لوگوں کو ملے۔ اِس مجمع کے ذریعے صرف ’’سُننے والے کانوں‘‘ کو یہ پیغام دیا گیا کہ اپنے دورِحکومت میں وہ کرپٹ رہے ہیں، نہ کرپشن کے سہولت کار۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی جنگ میں اے این پی کے ورکروں اور رہنماؤں نے قربانیاں دیں۔ امن کی بحالی میں اس کے کردار کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ مردان کی گلی گلی، کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ ترقیاتی کام بھی ہوئے لیکن سوات کے ترقی کے نام پر جو اربوں روپے آئے اور اس کوماڈل ضلع بنانے کے بار بارجو دعوے ہوئے، وہ لوگوں کے ورغلانے کی حد تک تو ٹھیک تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اے این پی پچھلی انتخابات میں ’’باجماعت‘‘ ہار گئی۔ بے شک اس ناکامی کو وہ جو بھی نام دیں۔

اسفندیار ولی خان گراسی گراونڈ سوات میں جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ (Photo: Dawn)

عین اُسی دن گیارہ بجے بلوگرام گراؤنڈ میں عوامی ورکرز پارٹی کا بھی ایک اجتماع ہوا، لیکن بڑی خاموشی، سادگی اور سنجیدگی کے ساتھ۔ جہاں جھنڈوں اور بینروں کی سونامی تھی، نہ اشتہارات اور بیانات کی بھرمار۔ لوگوں کی بھی قابلِ قدر تعداد موجود تھی۔
اس جلسے کی خاص بات ملاکنڈ ڈویژن کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایک بیس نِکاتی پروگرام کا اعلامیہ تھا جس کو ’’سوات ڈکلیریشن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی قائدین نے اپنے بنیادی نظریے اور مقاصد کی وضاحت کی اور کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی اور سیکولر سماج کی تشکیل ہی موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کی بنیادی بالادستی ہو، نیشنل سیکورٹی سٹیٹ کے تصور کا خاتمہ ہو۔ یہاں بسنے والے تمام اقوام کے مساوی حقوق ہوں اور اُن کے معاشی وسائل پر انہی کا حق اور قدرت ہو۔ صنفی برابری ہو۔ غیر مسلم آبادی کے حقوق کا تحفظ ہو اور مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے اُصول طے ہوں۔ جہاں ایمپائر کی اُنگلی کا ذکر نہ ہو، کہیں کسی کو اس کی کوئی فکر نہ ہو، نہ ادارے اور سیاست ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو، بلکہ سیاست ہی ریاست کاجزو لاینفک ہو۔ کہا گیا کہ عوامی ورکرز پارٹی کی سیاست، اِن اُصولوں کی بنیاد پر اور انہی مقاصد کے حصول کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے محروم افراد اور محنت کش طبقے کے علاوہ ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلا، سرکاری ملازمین، تعلیم یافتہ نوجوان اور سرگرم خواتین اس منظم تحریک کاحصہ ہیں۔ اس ملک کو بنے اکہتر سال ہونے کو ہیں، لیکن ابھی تک بالا دست طبقے یہ نہیں سمجھ سکے کہ سیاست ہی اس ملک کے تحفظ اور مختلف اقوام کے اتفاق و اتحادکا محور ہوگا، تب یہ ملک پلے گا بھی اور پھولے گا بھی۔ سیاست ہوگی، تو ملک ایک ہوگا، جو سب کا مشترکہ ہوگا، ورنہ چندری گل اے، لیکن اور کسی تدبیر سے اس مشترکہ وطن کے قائم رہنے کا تصور خاک میں مل جائے گا۔
اجتماع میں مطالبے کیے گئے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں نافذ آئین کے آرٹیکل دو سو سینتالیس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے بعد بنیادی آئینی اور انسانی حقوق کا پاس رکھتے ہوئے جگہ جگہ قائم چیک پوسٹیں ختم کرکے عوام کے آزادانہ نقل و حمل اور اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے قیام کے علاوہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا، جو دہشت گردی کے پسِ پردہ عناصر کی نشان دہی کر ے اور اس سلسلے میں حقائق سامنے لائے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے بلوگرام گراونڈ میں ہونے والے جلسے کا منظر۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

اعلامیے میں ماحولیات، زراعت، جنگلات، صنعت و حرفت اور معدنیات و جیم سٹون کے تحفظ و ترقی کے لیے قابلِ عمل حل بھی تجویز کیا گیا۔ خواتین، اقلیتوں، کسانوں، کاشت کاروں، مزدوروں، صحافیوں اور کاروباری لوگوں کے حقوق کے تحفظ اور غریبوں، مفلسوں اور معذوروں کے سوشل سیکورٹی کے لیے سفارشات بھی اعلامیے کا حصہ ہیں۔
اجتماع میں موجود ہزاروں کی تعداد میں حاضرین نے کھڑے ہو کر اعلامیۂ سوات کی منظوری دی اور وعدہ کیا کہ ان مطالبات کے حل کے لیے وہ ’’اے ڈبلیو پی‘‘ کی جدو جہد میں شریک رہیں گے۔
اجتماع میں دوسرا بڑا اعلان ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کے ساتھ مکمل طور پر اظہارِ یک جہتی کا تھا۔ کہا گیا کہ تحریک کے مطالبات ہمارے مطالبات ہیں۔ ان کے حل کے لیے وہ ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔ وہ سوات میں تحریک کے رہنماؤں کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور جب بھی اور جہاں بھی ضرورت پڑی، وہاں پر نوجوانوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ میڈیا نے اس جلسے کی کوریج کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ تاہم ڈان اور ڈیلی ٹایمز جیسے معتبر انگریزی اخبارات نے اس کی روداد کو بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔

عوامی ورکرز پارٹی کے قائدین سٹیج پر بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

قصہ پارینہ’’کشورِ حسین‘‘ اور تیس سال سے دہشت گردی کی ڈسی ہوئی وادئی سوات کوئی سوا تیئس لاکھ نفوس کا کاشانہ ہے، جس میں آدھے لاکھ کے قریب معذور و اپاہج ہیں، ہزاروں بیوائیں ہیں اور ہزاروں یتیم ہیں، جو زیادہ تر پچھلی جنگ میں بے دست وپا یا یتیم و یسیر ہو ئے ہیں ۔ لکھنے، پڑھنے اور کہنے کو تو یہ’’ اسلامیہ و جمہوریہ پاکستان‘‘ کا حصہ ہیں، لیکن دیکھنے کو یوں لگتا ہے کہ گویا اس کا کوئی والی ہے نہ وارث۔ یہ آبادی کے لحاظ سے صوبے کا تیسرا بڑا ضلع ہے، جو قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے اور جہاں معدنیات اور قیمتی پتھروں کے پہاڑوں کی فراوانی بھی ہے۔ جہاں کے وسائل مثلاً پانی و جنگلات سے ملک بھر کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ جس کا دریا ملک کے لاکھوں ایکڑ رقبے کو سیراب کرتا چلا آ رہاہے۔ جس کی بجلی سے لاکھوں گھر منور ہوتے ہیں۔ پچھلے پچاس سال سے یہ علاقہ اس ملک کا حصہ ہوتے ہوئے بھی بندوبستی علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، نہ غیر بندوبستی۔ یہ قبائلی ہے نہ فرنٹیئر ریجن۔ ہاں، اس کو صوبے کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ یعنی نیک نامِ زمانہ ’’پاٹا‘‘ سمجھا جاتاہے۔ یہاں کے لوگ شدید’’جغرافیائی جبر‘‘ کا شکار ہیں۔ یہاں کی نسلیں انتہائی ڈر، خوف، محرومی اور ذہنی پسماندگی میں زندگی کو عذاب جان کر جی رہے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی، وسائل اور تین پارٹیوں (ایم ایم اے، اے این پی اور اب تحریکِ انصاف) کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کے مکمل اختیارات دینے کے باوجود کسی بھی پارٹی نے یہاں سے اپنے ممبرکو صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے نہ اہل سمجھا، کبھی وزارتوں میں مناسب حصہ دیا اور نہ ہی یہاں کے بنیادی قانونی خلا، جس کی وجہ سے دہشت گردی پروان چڑھی اور بد امنی کو فروغ ملا، کو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کوششیں کیں۔ اسی وجہ سے یہاں کے مسائل بجائے کم ہونے کے بڑھنے لگے اور شدید انتظامی خلا اب بھی موجود ہے۔ انصاف کے طلبگار در بہ در پھر رہے ہیں، لیکن کوئی شنوائی والا ہو، تو بات سنی جائے۔ نوجوان ڈگریاں لے لے کر ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں، لیکن کوئی نوکری ہو تو دی جائے، کوئی میرٹ ہو، تو وہ روزگار پا لیں۔ عرب ممالک سے الگ لوگوں کا ہجوم بے روزگار ہو کر آ رہا ہے۔ بجلی کی اٹھارہ بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ حکومت پینے کے پانی کی فراہمی تک اہلیت نہیں رکھتی۔ یہاں کی اسی فی صد سڑکیں کھنڈرات کا نمونہ ہیں۔ جی ٹی روڈ کی حالت دیکھیں، مینگورہ سے مردان تک سو کلومیٹر کا فاصلہ چار سے پانچ گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے۔ یقینا یہاں کے مسائل بے حساب ہیں اور اُن کے حل کے لیے کوئی مکینزم نہیں۔ اے ڈبلیو پی نے بجا طور پر جس انداز میں یہاں کے مسائل کو چھیڑا ہے اور اس کے حل کے لیے جو طریقۂ کار وضع کیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ سوات کی سول سوسائٹی، جرنلسٹ، جرگوں کے مشران، کاروباری طبقہ، سیاحت اور صنعت و حرفت سے وابستہ لوگ بھی اِن مسائل کے حل کے لیے اپنی توانائیاں مثبت انداز میں استعمال کریں گے، تاکہ مشترکہ طور پر اس بیس نِکاتی پروگرام کو آنے والی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے تمام پارٹیاں نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ’’ایشو بیسڈ ‘‘ سیاسی جد و جہد کے لیے ’’کاروانِ ملاکنڈ‘‘ یا کسی اور نام سے ایک پلیٹ فارم بنا کر انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کر نے پر بھی سوچ سکتے ہیں۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔