کچھ دنیا کی عمومی معاملات میں تبدیلیوں اور کچھ اندرونِ ملک تبدیلیوں کے تناظر میں وطن عزیز کے انتظامی ڈھانچے میں جدید تقاضوں کے مطابق اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں۔ سیاسی حکمرانوں کے ڈھیر سارے خیالات میں ایک یہ کہ کسی لیڈر کے لیے صادق و امین ہونا ضروری نہیں اور یہ کہ عوام کی نمائندگی کرنے والے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ یہ دونوں خیالات متمدن انسانی معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔
برصغیر میں حکومتی اور انتظامی ڈھانچے انگریزی دور والی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ گذشتہ ایک سو سال کے دوران میں برصغیر کے معاشرتی حالات اور بین الاقوامی صورت حال میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ پاکستان میں کئی ایک انتظامی اصلاحات ہوئی ہیں، لیکن گذشتہ تین چار دہائیوں میں یہاں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جو مزید اور تازہ ترین اصلاحات کا تقاضا کرتی ہیں۔
افغانستان کی خانہ جنگی، پھر اس پر بیرونی طاقتوں کی یلغار کے نتیجہ میں سرحدی معاملات، درآمد و برآمد میں تبدیلیاں، پاکستان کے افغان پناہ گزینوں کی آمد اور یہاں کی سوشیو اکنامک حالات میں ہلچل مذہبی رجحانات میں تنوع، افغانستان، ایران اور بعض عرب ممالک میں گرم جنگوں اور بین الاقوامی سطح پر تیل کو جنگی حربے کے لیے استعمال نے برصغیر کے ممالک پر اثرات ڈالے۔ افغانستان، ایران اور پاکستان براہِ راست ان حالات سے متاثر ہوئے۔ بھارت پر بالواسطہ اثرات پڑے۔ ان اثرات نے ممالک کے اندرونی حالات و معاملات کی قابل توجہ صورت گری کی۔ پاکستان کے اندر خلیجی ممالک سے بے قاعدہ بھیجی گئی بے شمار دولت، پاک افغان بارڈر کے نہایت ہی شرمناک استعمال، ملک کے اندر کمزور حکمرانی، سیاسی افراد کی طرف سے بے سوچے سمجھے اور بے ڈھنگے فیصلوں جن میں کرپشن اور اقربا پروری سر فہرست ہیں، نے ملکی انتظامی سٹ اَپ کو شدید متاثر کیا اور خرابیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ اب اچھے خاصے سنجیدہ سیاسی لوگ بھی اُن کو ٹھیک نہیں کرسکتے۔ نااہلیت اور کرپشن (ملازمین اور غیر ملازمین سب میں) نے اندرونِ ملک بے شمار خباثتوں کو پروان چڑھایا۔ پہلے عام مسلمان روزِ قیامت کے حساب و کتاب کے ڈر سے گناہوں سے اجتناب کرتا تھا، پھر اُسے بتایا گیا کہ چند کلمات کے ورد کرنے سے اُس کے اگلے اور پچھلے اسّی، اسّی سالوں کے گناہ معاف ہوں گے۔ اس قسم کی تعلیمات نے سزا کے خوف کو کم کر دیا۔ ’’یونین ازم‘‘ کے زور سے ناموزوں افراد فیصلہ سازی کی کرسیوں پر زیادہ تعداد میں براجمان ہوگئے۔ بہت بڑی اور وسیع پیمانے کی غیر ضروری درآمدات نے کئی ایک خرابیوں کو جنم دیا۔ حکومتوں کی غلط منصوبہ بندی، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے آپس کے رابطوں اور تعاون کے فقدان نے بے روزگاری میں بڑی مدد کی۔ یہ اور اس قسم کی درجنوں وجوہات ہیں جو نظامِ حکمرانی اور انتظامی طریقوں میں مناسب تبدیلیاں ناگزیر کرتی ہیں۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم نے اس کام کو آسان بھی کردیا ہے۔

بہت بڑی اور وسیع پیمانے کی غیر ضروری درآمدات نے کئی ایک خرابیوں کو جنم دیا۔ (Photo: petrosetco.com.vn)

اس لیے اگر
1:۔ پی سی ایس (پی ایم ایس) میں ایک الگ کیڈر بڑے دفتری امور یعنی ایڈمنسٹریشن، رولز ریگولیشنز، مالیات و منصوبہ بندیوں کا بنایا جائے اور ہر اُس دفتر جہاں دس لاکھ روپیہ یا زیادہ کسی بھی قسم کا بجٹ صرف ہوتا ہو، اس کیڈر کے افسران کے لیے مخصوص کیا جائے، تو بد انتظامی کم سے کم ہوجائے گی۔ دفتری کرپشن میں کمی آئے گی اور ٹیکنوکریٹس اپنے شعبے کی راہنمائی و نگرانی کے لیے فارغ ہوکر اپنے شعبوں کو بہتر کرسکیں گے۔
2:۔ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کی استعداد جدید خطوط پر بڑھادی جائے۔
3:۔ موجودہ صوبائی سطح کے مختلف ڈائریکٹوریٹس تحلیل کیے جائیں۔ ان کی جگہ ڈویژنل سطح پر ایسے ڈائریکٹوریٹس بنائے جائیں جن کے افسران متعلقہ ڈویژنل کمشنرز کو بلواسطہ ڈپٹی کمشنرز جوابدہ ہوں، ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹس کمشنرز لکھا کریں گے۔ فی الوقت تو بڑا نالائق چھوٹے نالائقوں کا نگران ہوتا ہے، اس لیے کھربوں کے اخراجات اور مراعات کے باوجود ترقیِ معکوس کے سوا قوم کو کچھ نہیں ملتا۔
4:۔ اس مجوزہ طریقہ کے تحت کمشنرز، ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی حکومتوں کے سربراہان کے ساتھ با ضابطہ میٹنگز کے بعد رپورٹس صوبائی سیکرٹریٹ کو اپنی سفارشات کے ساتھ بھیجا کریں گے، جہاں ضروری منصوبہ بندی یا قانون سازی ہوگی۔ مثال کے طور پر ضلعی؍ ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر ایجوکیشن کیڈر کا ہوگا۔ اُس کا ساتھی ایڈمن اینڈ اکاؤنٹس کا آفیسر مذکورہ بالا پی سی ایس کا شخص ہوگا جو کمشنر کو جوابدہ ہوگا۔ کمشنرز متعلقہ سیکرٹریز کو ان ڈویژنل دفتروں کی کارکردگی بھیجیں گے۔ فی الوقت تو حالات یہ ہیں کہ ایس ڈی ای او سے لے کرڈائریکٹرز اور بعض جگہ سیکرٹریز تک استاد برادری کے لوگ ہیں، جو تعلیم کی جگہ برادری کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
5:۔ مختلف دوسرے خود مختار اور نیم خود مختار ادارے بھی ضلعی ناظم، ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے ماتحت ہوں ان میں بھی پی سی ایس افسران تعینات ہوں اور اُن کے ذریعے حکومت کو جواب دہ ہوں۔
6:۔ ہر شعبے کا اعلیٰ افسر اپنے ما تحتوں کی کارکردگی کا خود دس فی صد ماہانہ چک کرنے کا پابند ہو، تاکہ اچھی کارکردگی کے راستے میں کوئی رکاؤٹ ہو، تو اُسے دور کیا جائے۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔