بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے انسانی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ خاص کر شہری علاقوں میں کھلے اور قابل کاشت مقامات کی کمی اور خاص کر ہم لوگوں کی سبزے سے دشمنی کی وجہ سے فضا میں گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔ شہروں میں پارکس اور سیر و تفریح اور سکون کے چند لمحوں کے لیے باغات وغیرہ کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے پیش نظر آج کل ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک بھی نئی بنائی جانے والی عمارات میں چھتوں پر باغبانی یعنی (Roof Top Gardening/ Farming) کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف باغبانی کے شوقین افراد محدود جگہوں میں خوب صورتی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو پورا کرسکتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی میں کمی بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح چھتوں پر سبزیوں کی کاشت سے کسی حد تک ہماری گھریلو ضروریات بھی پوری ہوسکتی ہیں۔
چھتوں پر باغبانی کا شوق یا طریقہ کار نیا نہیں ہے۔ تاریخ میں اس طریقہ کار کے ثبوت چھے سو قبل از مسیح کی رومن تاریخ اور گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں مسلم دور حکومت میں ملتے ہیں۔ مصر میں مسلم حکمرانوں کی عمارات کی تعمیر میں دلچسپی کی بہ دولت جب چودہ چودہ منزلہ عمارتیں بننے لگی تھیں، تو اُس وقت بھی چھتوں پر باغبانی کو فروغ دیا گیا تھا اور چھتوں پر سبزیوں کی کاشت بھی کی جاتی تھی، جس کے لیے آب پاشی کا بھی اُس وقت کی مناسبت سے انتہائی جدید اور معقول بندوبست کیا گیا تھا۔ چھتوں کی منڈیروں پر گملوں اورناکارہ برتنوں میں کئی قسم کے پودے لگانے کا رواج ہمارے ہاں بھی عام تھا، جن میں عام طور پر تلسی، گیندہ پھول، پودینہ، دھنیا، پیاز، مرچ، ٹماٹر اور دوسرے عام پودے جو آسانی سے اُگائے جاتے تھے، جن سے نہ صرف کچی چھتوں کی منڈیروں کو مضبوطی ملتی تھی بلکہ قدرتی خوب صورتی بھی ملتی تھی۔ اب جب کنکریٹ کی پختہ کئی کئی منزلہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں، تو منڈیروں پر پودوں کا تصوربھی معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں فی الحال عمارت میں سبزے کے لیے جگہ مخصوص کرنے کا رواج اتناعام نہیں ہے، جتنا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ کیوں کہ وہاں انسانی زندگی سے وابستہ ہر زاویے پر تحقیق کی جاتی ہے اور وہاں کے میٹروپولٹن شہروں میں جہاں کھلے مقامات کی کمی بہت زیادہ ہوتی ہے، وہاں پر قدرتی خوبصورتی، صاف فضا اور راحت و سکون کے لیے بڑی بڑی عمارات میں پودوں کے لیے مخصوص جگہ مقرر کی جاتی ہے۔ بڑی عمارات کی چھتوں پر باغبانی، فارمنگ اور بیل بوٹے اُگانے کو اب ایک آرٹ کے طور پر لیا جا رہا ہے اور بلڈنگ کنسٹرکشن میں یہ ایک باقاعدہ مضمون بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بہت سارے لوگ ہیں، جن کے پاس باغبانی کے لیے کھلی جگہ نہیں ہوتی۔ اپنے گھر، فلیٹس، اپارٹمنٹس یا دفتر کی چھتوں پر باقاعدہ باغبانی کرتے ہیں اور مختلف گملوں اور گھرکی دیگر ناکارہ اشیا جن میں پودے اُگائے جا سکتے ہیں، کو استعمال کرکے اپنی چھتوں کو ہری بھری رکھتے ہیں۔ چھتوں پر گملوں وغیرہ میں آرائشی پودوں کے ساتھ ساتھ آسانی سے اُگائی جانے والی سبزیاں اور پھل بھی اُگائے جا سکتے ہیں۔ جن سے ہمارے کچن کی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چند مشورے اور احتیاطی تدابیر یہاں بیان کی جاتی ہیں، جن پر عمل کرکے آپ محدود جگہ میں باغبانی کر سکتے ہیں اور اپنی عمارت کو کسی ممکنہ نقصان سے بھی بچا سکتے ہیں۔

چھت پر باغبانی کا ایک خوبصورت منظر۔ (Photo: pintrest.com)

٭ چھتوں پر باغبانی کا ماحول اور درجۂ حرارت پر اثر:۔ چھتوں پر سبزہ اُگانے سے موسمی اثرات کو کافی حد تک کم کیاجاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کسی عمارت کی چھت یا آس پاس پودے اور درخت لگانے سے چھے اعشاریہ تین سے گیارہ اعشاریہ چھے سینٹی گریڈ تک موسم کی شدت میں فرق آسکتا ہے۔ شہری علاقوں میں جہاں سورج کی تپش کنکریٹ کی دیوارں کا درجۂ حرات بڑھا دیتی ہے، پکی عمارتوں کے درمیان کم فاصلے، ہوا کے گزرنے کے نامناسب راستوں سے فضا کی حدت میں اضافہ ہوتا ہے، وہاں سبزے کی موجودگی ان عوامل سے بڑھنے والی گرمی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ جب کہ سرد علاقوں میں یہی پودے باہر کی سردی کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں اور ماحول کو صاف ستھرا بھی رکھتے ہیں۔ چھتوں پر قرینے سے سجے ہوئے پودے آپ کو ایک سکون اور راحت بھری فضا فراہم کرتے ہیں، جہاں پر تھوڑی دیر بیٹھ کر آپ دن بھر کی ٹینشن اور مصروفیت سے کچھ لمحے سکون و آرام کے گزار سکتے ہیں۔
٭ پودوں کا انتخاب:۔ چھتوں پر باغبانی کرنے کے لیے پودوں کا انتخاب بھی ایک اہم مرحلہ ہے۔ ایک بات جو سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ یہ کہ چھتوں پر جو بھی پودے اُگائے جائیں، اُن کی جسامت اور جڑوں کے لیے درکار مٹی کی مقدار آپ کی چھت کے مطابق ہو۔ ایسے پودے ہرگز نہ لگائیں جائیں جو چھت پر بوجھ بن جائیں یا اُن کے لیے بہت زیادہ مٹی کی ضرورت ہو۔ پاکستان میں اب ایسے پودے اور پھلدار درخت بھی دستیاب ہیں، جن کو آپ گملوں میں آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ نرسری سے لیموں، مالٹا، امرود، سیب، انگور اور دیگر ایسے بہت سارے پودے لے سکتے ہیں جن کو حرف عام میں ’’چائنہ پودے‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اُن کی جسامت چھوٹی ہوتی ہے اور پھل بھی خوب لگتا ہے۔ جبکہ سبزیوں میں ٹماٹر، مرچ، پودینہ، دھنیا، بینگن، بھنڈی، توری، کریلا، کھیرا، کدو، گاجر، مولی، مکئی اور دیگر قسم کے اجناس و سبزیاں کم جگہ میں آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ موسمی آرائشی پودوں کے ساتھ ساتھ مستقل آرائشی پودے بھی لگائے جاتے ہیں، جن کی تراش خراش اور مناسب دیکھ بھال سے آپ ایک مکمل باغ اپنے گھر کی چھت پر بنا سکتے ہیں۔ موسمی پھولوں کے لیے اگر چھوٹے چھوٹے گملے رکھیں جائیں اور اُن میں موسم کے لحاظ سے پنیری لگائی جائے، تو یہی گملے آپ ہر بار استعمال کرسکتے ہیں۔ بس نرسری سے آپ کو موسم کے مطابق پھولوں کی پنیری لینا ہوگی اور اگر اپنے گھر میں پنیری اُگائیں، تو یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے، لیکن یہ خیال رکھا جائے کہ جب گملے میں نیا پودا لگائیں، تو ساتھی گملے کی مٹی بھی تبدیل کریں یا اس مٹی کو اچھی طرح سے نرم کرکے اس میں مناسب مقدار میں کھاد بھی شامل کریں۔ اسی طرح سے آج کل عمودی باغبانی کا رواج بھی فروغ پا رہا ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ـ’’قادر بخش فارمز فیصل آباد‘‘ـ نے ایسی عمودی دیواریں متعارف کروائیں، جن میں آپ آسانی سے نہ صرف آرائشی پودے بلکہ سبزیاں اور پھل بھی آسانی سے اُگا سکتے ہیں۔ یہ عمودی باغبانی کے لیے نہایت ہی موزوں طریقہ کار ہے اور اُن علاقوں کے لیے جہاں زمین کی کمی ہے یا فلیٹس و اپارٹمنٹس کی محدود ٹیرس، بالکونی وغیرہ میں تھوڑی سی جگہ پر مناسب سائز کے عمودی Living Walls لگا کر آپ اپنے شوق کی تسکین کرسکتے ہیں۔ یہ عمودی دیواریں تو اَب پاکستان میں ہرجگہ تنصیب کی جا رہی ہیں اور بہت آسانی سے ان میں پودے اُگائے جا رہے ہیں۔

چھتوں پر باغبانی کا ماحول اور درجۂ حرارت پر اچھا خاصا اثر پڑتا ہے۔

٭ احتیاطی تدابیر:۔ احتیاطی تدابیر میں سب سے اہم بات عمارت کا تحفظ ہے۔ جب بھی چھت پر باغبانی یا پودے اُگانے کا ارادہ ہو، تو سب سے پہلے عمارت کی چھت کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ آیا چھت اس قابل ہے کہ اس پر پودے اُگائے جاسکیں یا یہ اتنا وزن برداشت کرلے گی؟ دوسری اہم بات زائد پانی کے اخراج کا مناسب بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف چھتوں کے لیک ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے بلکہ پودوں کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ چھتوں پر دھوپ کی مقدار کا جائزہ بھی لیا جائے اور اُسی مناسبت سے پودوں کا انتخاب بھی کیا جائے۔ جن پودوں کو زیادہ دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے، اُن کے لیے دھوپ والی جگہوں کو منتخب کریں جب کہ جن پودوں کو کم دھوپ درکار ہو، وہ چھاؤں والی جگہوں پر ہوں، تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گملوں کا انتخاب کرتے وقت بھی اُن کے وزن اور اُس میں مٹی کی مقدار کو بھی ذہن میں رکھیں۔
آج کل مارکیٹ میں بہت سارے ایسے کارٹن، ڈبے اور خاص کر تھیلے اور سبزیوں کے کریٹ دستیاب ہیں جو اچھے میٹریل کے بنے ہونے کی وجہ سے اُن میں آپ آسانی سے پودے اُگا سکتے ہیں، جو کہ نہ صرف کم قیمت ہوتے ہیں بلکہ پائیدار بھی بہت ہوتے ہیں۔ سبزیوں اور پھولوں کے گملوں کی مٹی میں بروقت گوڈی کرنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ جب اس کی مٹی نرم ہوگی، تو اس میں پودے کی جڑوں کو آکسیجن کی مناسب مقدار اور جڑوں کی نشو و نما کے لیے نرم مٹی ملے گی۔ اسی طرح سے پودوں کو وقت پر پانی دینا بھی بہت اہم ہے، نہ بہت زیادہ پانی دیا جائے اور نہ ہی اتنا کم کہ پودے کی صحت متاثر ہو۔ یہ خاص خیال رکھا جائے کہ جو بھی گملے، کریٹ، کارٹن، ناکارہ برتن یا تھیلے وغیرہ استعمال کیے جائیں، اُن کے پیندے میں اضافی پانی کے اخراج کے لیے سوراخ ضرور ہوں، تاکہ پودے کی جڑیں زائد پانی کی وجہ سے گلنے سڑنے سے محفوظ رہیں۔
اس طرح پودوں کی نشو و نما کے لیے اُن کو مناسب وقفے سے کھاد ڈالنا بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے مارکیٹ اور نرسریوں سے تیار کھاد دستیاب ہوتی ہے، جس کی مناسب مقدار دینا ہوتی ہے، زیاد ہ کھاد پودے کو جلا سکتی ہے۔ جبکہ آپ اپنے کچن کے کوڑے کرکٹ یعنی سبزیوں، پھولوں کے چھلکے، ساگ وغیرہ اور دوسری Organic Waste کو مٹی میں دبا کر کچھ عرصہ کے لے رکھ چھوڑیں، تو ایک اچھی کھاد آپ کو گھر ہی میں مل سکتی ہے، مگر اس کے لیے تھوڑا وقت درکار ہوتا ہے۔
اسی طرح پودوں کی مناسب طریقے سے ترتیب بھی لازم ہے۔ بڑے پودے ایسی جگہوں پر ہوں کہ جن کے سائے سے دوسرے پودے جن کو زیادہ دھوپ کی ضرورت ہو، متاثر نہ ہوں اور چھوٹے پودے بھی ایسی جگہوں پر ہوں، جہاں اُن کو پرورش کے لیے اچھی فضا ملے۔ ایک بات پھر یہاں دھرائیں گے کہ چھت کی مضبوطی اور زائد پانی کے اخراج کو ہمیشہ ذہن میں رکھ کر چھتوں پر باغبانی کی جائے۔
چھتوں پرنہ صرف سبزیاں، پھل، پودے، بیلیں اُگا کر بلکہ خوب صورت پرندے یا جانوروں کے لیے مناسب پنجرے بنا کر وہ بھی پال سکتے ہیں اور اُن کے درمیان اُٹھنے بیٹھنے کی مناسب جگہ بنا کر سکون کے کچھ لمحات اپنے پیاروں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔