سوات میں پچھلے چند سالوں سے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر تشدد کے سیکڑوں واقعات سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور شخصیات اس پر تشویش کا اظہارکرتی ہیں اور کئی مرتبہ انہوں نے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ اس حوالہ سے سوات میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’’دی اویکننگ‘‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں ضلع بھر میں 47 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے جن میں تین مرد اور باقی خواتین ہیں۔ ادارے کے سربراہ عرفان حسین بابک کے مطابق یہ وہ واقعات ہیں جنہیں میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کو چھپایا گیا ہے۔

’’دی اویکننگ‘‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں ضلع بھر میں 47 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔

عرفان حسین بابک آگے کہتے ہیں کہ ان قتل شدہ خواتین میں زیادہ تر کو زہر دے کر مارا گیا ہے اور بعد میں ایسے واقعات کو خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ واقعات زیادہ تر تحصیل کبل اور مٹہ کے دورداز علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔
عرفان حسین بابک کے ریکارڈ کے مطابق سال 2017ء میں 335 خواتین پر جسمانی تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں اقدامِ قتل اور خواتین کے اعضا تک کاٹنے کے واقعات شامل ہیں۔ ان واقعات میں زیادہ تر ملزمان کو تاحال کسی قسم کی سزا نہیں ہوئی ہے اور زیادہ تر آزاد گھوم رہے ہیں۔
عرفان حسین بابک نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ قانون سے ناواقفیت، معاشرتی رویے اور پولیس کی طرف سے مناسب اقدامات کا نہ ہونا بڑے اسباب میں سے ہے۔

ادارہ "دی اویکننگ” کے سربراہ عرفان حسین بابک۔

اس حوالہ سے ایک واقعہ کے بارے میں پلوشہ (فرضی نام) کہتی ہے کہ چھے ماہ قبل اس کی سہیلی جو دسویں جماعت میں پڑھتی تھی، اس کو بھائی نے زہر دے کر قتل کردیا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس لڑکی کے رشتے کے لیے اس کے ایک رشتہ دار لڑکے کا پیغام آیاتھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، مگر خاندان والوں کو یہ رشتہ صرف اس وجہ سے پسند نہیں تھا کہ لڑکا غریب تھا۔ لڑکی کے بھائی نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا، نتیجتاً لڑکی نے اپنی ماں کو صرف اتنا کہاکہ وہ اپنی پسند کی شادی کرے گی۔ اس بات کا لڑکی کے بھائی کو پتا چل گیا۔ بھائی یہ سوچ کر غیرت میں آیا کہ کہیں اس کی بہن اپنی مرضی کے مطابق ’’کورٹ میرج‘‘ نہ کرلے، اس لیے اپنی بہن کو زہر دے کر ماردیا اور محلے میں یہ مشہور کرا دیا کہ لڑکی معدے کے کینسر کی مریضہ تھی، اس لیے فوت ہوگئی جب کہ خاندان والوں کو معلوم تھا، مگر کسی نے اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ یوں بڑی دیدہ دلیری سے ایک جیتے جاگتے انسان کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا گیا۔ اس قتل کی کوئی پولیس رپورٹ درج ہوئی نہ خاندان کے دوسرے لوگوں نے ہی منھ کھولا۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتاہے۔ اس بارے میں خواتین کے حقوق کے لیے ’’جرگہ‘‘ بنانے والی تبسم عدنان کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر ہمارے معاشرے میں قتلِ عام جاری ہے اور موردِ الزام صر ف اور صرف بیچاری خاتون کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔

"جرگہ” ایک خاتون پر تشدد کے خلاف اکھٹا ہوا ہے۔ (فوٹو: نیاز احمد خان)

انہوں نے کہا کہ ہمارے رویے اور خاندانی رسم و رواج دونوں ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ تبسم کے بقول غیرت کے نام پر ایک خاتون کو فردِ واحد قتل نہیں کرتا بلکہ پورا خاندان اور معاشرہ اُس کے قتل میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ اس وجہ سے غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات میں کمی نہیں آ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے بارے میں مردوں کے رویے اور سلوک کا جو سلسلہ جاری ہے، اس سے غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ سلسلہ انتہائی تشویشناک ہے اور اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے معاشرے میں آگاہی مہم چلانا انتہائی ضروری ہے۔ صرف حکومتی اقدامات اور قوانین بنانا کافی نہیں بلکہ اس قتل عام کی روک تھام کے لیے علمائے کرام اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

تبسم عدنان تشدد زدہ خاتون کی عیادت کر رہی ہیں۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

ضلع سوات کے پولیس آفیسر واحد محمود (ڈی پی اُو) کے مطابق سال 2017ء میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کے خلاف صرف بارہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان کیسوں میں دو مقدمات میں دو افراد گرفتار بھی کیے جاچکے ہیں۔ باقی دس واقعات کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ اُن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات میں کوئی مدعی نہیں ہوتا اور نہ کوئی بننے کے لیے تیار ہی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کیس کمزور ہوتا ہے۔ تاہم نئے قانون کے مطابق اس طرح کے واقعا ت میں پولیس مدعی ہوتا ہے اور ایس ایچ او کیس کی پیروی کرتا ہے۔ ان واقعات میں زیادہ ترراضی نامے ہوجاتے ہیں۔

ڈویژنل پولیس آفیسر سوات (ر) کیپٹن واحد محمود۔

ڈی پی اُو کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی پولیس آفیسر غیرت کے ناپر قتل کو ’’حادثاتی موت‘‘ قرار دیتا ہے، تو ہم اس کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہیں۔ اس طرح کے خلافِ قانون کام کی روک تھام کے لیے باقاعدہ نظام قائم ہے۔
رحیم آباد دارالعلوم کے مہتمم اور عالم مولانا صدیق احمد غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اس لیے دینِ اسلام اس عمل کو سختی سے منع کرتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل کو گناہِ کبیرہ گردانتا ہے۔ اس طرح کے قتل میں معاونین یاقتل کو چھپانے والے بھی اللہ تعالی کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
سوات اور خیبر پختون خوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام بارے مذہبی سکالرز، سیکورٹی اداروں کے ماہرین اور انسانی حقوق کے نمائندے اس نکتے پر متفق ہیں کہ اس قبیح عمل کی روک تھام کی حکومتی ذمہ داری ایک طرف مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہر انسان اور ذمہ دار شخص کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس طرح واقعات کی حوصلہ شکنی کریں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو قانونی گرفت میں لانے کے لیے پولیس کی مدد کریں۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔