تیس جنوری 2018ء کے اخبارات نے اسلام آباد سے سرکاری خبر شائع کی ہے کہ حکومت نے رجسٹرڈ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ تین تا چار فی صد اضافہ بتایا گیا ہے، لیکن عوام کے ہاتھوں تک پہنچنے تک یہ اضافہ اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ گذشتہ حکومت نے ادویات میں اضافہ نہیں کیا تھا، لیکن گتے اور کاغذ کی قیمتیں بڑھا کر عوام کو اَدھ موا کیا تھا۔ کیوں کہ ادویات کے پیکنگ میٹریل کے مہنگے ہونے سے دباؤ عوام پر ڈالا گیا تھا۔ دوا ساز کمپنیاں دوسرے تجارتی اداروں کی طرح ہر قسم کے اخراجات عوام سے وصول کرتی ہیں۔ علما بتاتے ہیں کہ ادویات اتنی مہنگی نہیں ہوتیں، جتنا ان کو مختلف ناموں کے ذریعے مہنگا بیچا جاتا ہے۔ بڑے بھٹو نے عام آدمی کی خاطر ادویات کو ان کے جنرل ناموں سے فروخت کرنے کا طریقہ رائج کیا، تو اسے ناکام بنانے کے لیے ’’الراشی والمرشی‘‘ اور ناجائز منافع خور اتنی طاقت سے سامنے آگئے کہ بڑے بھٹو کی حکومت بھی کارخانہ داروں اور تاجروں کے سامنے بے بس ہوئی اور پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمان اپنے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کیوں……؟ یہ ہمارا موضو ع نہیں، لیکن آخر کب تک اس عظیم آبادی کے ساتھ قسم قسم کے کھلواڑ ہوتے رہیں گے۔ خدا اور رسولؐ نے تو ان کو اچھی زندگی گزارنے کے طریقے بتا دیے ہیں اور وہ طریقے ان کے ساتھ زبانی نہیں تحریری طور پر موجود ہیں۔ بڑے بڑے علمائے مذہب بھی اسمبلیوں اور حکومتوں میں موجود رہتے ہیں، لیکن آخر وہ نبی کریمؐ کے اس حکم کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ’’اگر برائی دیکھو، تو اس کو ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ میں طاقت نہ ہو، تو زبان سے روکو، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ اس لیے یہ یا تو وہ خود عوام میں سے نہیں بلکہ بورژوا طبقے سے ہیں (یہ کافی حد تک حقیقت بھی ہے)، اور یا نالائق ہیں۔ حالاں کہ کسی برائی سے خبردار کرنے یا اس کی نشان دہی پر مؤثر کارروائی بھی ہوتی ہے۔ اس کا مشاہدہ قوم نے حال ہی میں کر دیا، جب ایک مولوی ایم این اے صاحب نے عقیدۂ ختم نبوت ؐکے خلاف حکومت کی نقب زنی کی نشان دہی کی اور پورے ملک میں زبردست ہلچل برپا کر دیا، جس نے بادشاہ اور وزیروں کو کرسیوں سے اُٹھا پھینکا۔

وطنِ عزیز میں بھارت سے آنے والی ادویات بہت سستی ہوتی ہیں۔ (Photo: The Indian Express)

تیسری دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کمزور اخلاقی قوت عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کرتی ہے۔ گذشتہ کسی حکومت نے یہ پالیسی بنائی تھی کہ ادویات کے دکان دار غالباً بارہ فیصد ڈسکاؤنٹ خریدار کو دیں گے اور ہم سب جانتے ہیں کہ شریف اور اللہ سے ڈرنے والے کیمسٹ حضرات یہ رعایت خریدار کو دیتے ہیں، لیکن زیادہ تر دکاندار خریدار سے ڈبیا پر لکھی ہوئی قیمت وصول کرتے ہیں۔ مَیں ادویات کا دائمی خریدار ہوں اور ان کیمسٹوں کو دعا دیتا ہوں جو مجھے رعایت دیتے ہیں، اور ان کے حق میں خاموش رہتا ہوں جو یہ رعایت خود رکھ لیتے ہیں۔ لیکن خدا تو دیکھتا ہے، جس قوم میں اعلیٰ کردار،خدا خوفی اور احساسِ ذمہ داری نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ بدتر زندگی گزارتی ہے۔ حکومت نے ادویہ فروشوں کو اختیار دیا کہ اتنی فیصد رقم خریدار کو واپس کیا کرو۔ یہ بے ڈھنگا طریقہ سرکار نے کیوں اختیار کیا؟ انصاف کے ترازو کو مجرم کے ہاتھوں تھما دیا؟ اس لیے کہ حکومت عوام کی خیر خواہ نہ تھی۔ یہ حقیقت بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں بھارت سے آنے والی ادویات بہت سستی ہوتی ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ ایک سچائی ہے یا دشمن ملک کا کوئی حربہ؟ حکمران لوگ یا ان کا ’’بابو بٹالین‘‘ اس سے بے خبر کیوں ہے؟
ادویات کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ، اس کے معیار اور مقدار میں کمی کرنا، ڈبیا پر قیمتوں کا نہ لکھوانا یا واٹر کلرز میں چھاپنا، ڈبیوں پر بعض ضروری تحاریر کو مٹانا، ہمارا عام مشاہدہ ہے لیکن حکومت کا ’’بابو بٹالین‘‘ ان پر اندھا اور بہرا ہے۔ جعلی اور غیر معیاری ادویات ہماری ادویہ انڈسٹری سے وابستہ ایک لعنت ہیں۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سو افراد ہسپتالوں میں اس لیے یک دم مرجاتے ہیں کہ الحاج ٹھیکیدار صاحب نے ہسپتال کو جعلی ادویہ سپلائی کی ہوتی ہیں۔ مگر پھر بھی اپنے محلے کے خوبصورت خطیب صاحب کی تقاریر سے اقتباسات پیش خدمت ہیں: ٭ ’’جو شخص (حاجی) عرفات کے میدان میں مخصوص مقامات پر مخصوص اعمال کرے، اس کے ہر عمل سے ہر ایک گناہ کبیرہ معاف ہوجاتا ہے۔‘‘ ٭ ’’جس شخص نے اپنے بیٹے کو حافظِ قرآن بنایا، وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائے گا۔ اور اس کی اگلی اور پچھلی نو نسلوں کو معافی ملے گی۔‘‘ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ روزِ قیامت ذرے ذرے کا حساب ہوگا، دنیا میں اچھے کردار والے کو انعام (جنت) اور برے کرداروالے کو سزا(دوزخ) نوازا جائے گا۔ اس لیے اس حوالہ سے علما سے محتاط تقاریر کی درخواست ہے۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔