کچھ دیر ’’کاوگوچی‘‘ جھیل کے کنارے پھولوں کے باغات میں ٹہلتے ہوئے میں نے ایک ریسٹورنٹ دیکھا، تو اس حسین اور پُرسکون ماحول میں کافی پینے کا موڈ ہوا۔ میں اندر گیا جہاں کاؤنٹر پر دو خواتین گاہکوں کو خوش مزاجی سے خوش آمدید کہہ کر ان کو چائے، کافی اور بسکٹ پیش کررہی تھیں۔ میں نے بھی کافی لی اور رقم ادا کرنے کے بعد ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھ گیا، جہاں سے صاف و شفاف شیشوں کے باہر رنگ برنگے پھولوں کے دالان، جھیل اور فوجی پہاڑ کا نظارہ کیا جا سکتا تھا، تاہم آج گہرے بادلوں نے فوجی پہاڑ کی چوٹی کو یوں ڈھانپ رکھا تھا جیسے کوئی عاشق اپنے معشوق کو دنیا کی نظروں سے چھپانے کی خاطر اس کے اوپر پڑا ہو۔ یہاں آئے ہوئے ہزاروں کی تعدا د میں مقامی اور بین الاقوامی سیاح صرف اور صرف فوجی پہاڑ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آئے تھے اور ان کے بار بار پہاڑ کو دیکھنے کے عمل سے میں ان کی افسردگی کو جانچ سکتا تھا۔ میں کافی کے گھونٹ لیتے ہوئے اس پُررونق اور پُرفضا ماحول سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ میری نظر ریسٹورنٹ میں تنہا بیٹھی ایک انگریز لڑکی پر پڑی جس کے بال کھلے اور شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ شکل وصورت سے انتہائی خوبصورت تھی۔ وہ چائے پیتے ہوئی موبائل فون میں کچھ دیکھ کر مسکراتی اور باہر جھیل کو دیکھتی جا رہی تھی۔ جب میں نے کافی ختم کی، تو میں اٹھا اور اس کے پاس جا کر پوچھا کہ وہ انٹرنٹ سے کنکٹ ہے؟ جواباً اُس نے میری طرف دیکھا، تو اس کی غزال آنکھیں حشر بپا کر رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں جب میری نگاہوں سے ٹکرائیں، تو عجیب سا محسوس ہوا۔
آنکھ ان کی لڑی یوں میری آنکھ سے
دیکھ کر یہ لڑائی مزا آگیا

ایلس جھیل کنارے کھڑی ہیں، پیچھے ماونٹ فوجی دکھائی دے رہا ہے۔ (فوٹو: لکھاری)

اس نے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ سجا کر جواب دیا کہ ہاں وہ انٹرنٹ سے کنیکٹ ہے اور میرا موبائل بھی کنیکٹ کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔ دوسرے ہی لمحے میں نے اپنا موبائل اُسے دیا۔ اس نے میرا موبائل انٹرنٹ سے کنیکٹ کیا، موبائل واپس مجھے دیا اور مسکراتے ہوئے کہا: ’’انجوائے۔‘‘ میں نے موبائل لیا اور واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس ’’مہ وش‘‘ نے میرے اندر طوفان کھڑا کیا تھا۔ ’’کاواگوچی‘‘ جھیل کنارے رنگین پھولوں کے احاطے میں یہ پری زاد، انسانوں کے بیچ کیا کر رہی تھی؟ میں اسی سوچ میں تھا کہ وہ اُٹھی اور باہر نکل گئی۔ اس کے نکلنے سے مجھے پورا ماحول سنسان محسوس ہونے لگا۔ میری کافی بھی ختم تھی۔ اس لیے میں اُٹھا، باہر نکلا اور بس سٹاپ کی طرف چل پڑا، جہاں کافی سیاح پہلے ہی سے انتظار میں کھڑے تھے۔ میں بس کا انتظار کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ دور ایک پرائیوٹ بس کے قریب اسی انگریز لڑکی پر میری نظر پڑی، جو بس کے ڈرائیور سے کچھ پوچھ رہی تھی۔ غیر ارادی طور پر میری نظریں بھی وہیں رکیں۔ کچھ لمحوں کے بعد ڈرائیور نے لڑکی کو ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہا۔ شاید وہ بس سٹاپ کا ہی پوچھ رہی تھی۔ وہ ہماری طرف ہی آئی اور میرے قریب کھڑے ہو کر پوچھا کہ کیا یہی بس سٹاپ ہے؟ جواباً میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے اس حسینہ سے باتیں شروع کیں۔ اس کا نام ’’ایلس‘‘ تھا اور اس کا تعلق یوروپی ملک پولینڈ سے تھا۔ وہ معاشیات کی طالب علم تھی۔ اپنی چھٹیوں میں کچھ دنوں کے لیے ہانکانگ میں رضاکارانہ طور پر بچوں کو انگریزی پڑھانے کے لیے گئی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ وہاں سے جاپان دیکھنے آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ فوجی پہاڑی کی دوسری جانب جھیل ’’سائیکو‘‘ اور قدیم روایاتی گاؤں دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ قدیم روایاتی گاؤں کا سُن کر میں نے بھی جانے کی حامی بھرلی، یوں وہ خوش ہوئی۔ سرخ رنگ کی بس آئی اور ہم سب بس میں چڑھ گئے، تو میں اور ایلس بس کی کھڑکی کے قریب کھڑے ہوئے اور رسمی بات چیت کرتے ہوئے آخری سٹاپ پر اتر گئے۔ اب سبز رنگ کی بس کا انتظار کرنے لگے، تاکہ جھیل ’’سائیکو‘‘ اور روایتی گاؤں جا سکیں۔ تاہم سٹاپ پر لگے ٹائم شیڈول کو دیکھا، تو اگلی بس کے آنے میں ابھی دس منٹ تھے۔ اس لیے ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ سامنے جھیل کنارے کچھ تصویر کشی کی جائے۔ میں نے ایلس کی کئی تصویریں لیں اور واپس آئے۔ سبز رنگ کی بس آئی، تو ہم بس میں بیٹھ گئے جو ’’کاواگوچی‘‘ جھیل کے ساتھ ہی سڑک پر دوڑنے لگی۔

جاپان کا روایتی گاؤں۔ (فوٹو: لکھاری)

ماؤنٹ فوجی کے ارد گرد پانچ خوبصورت جھیلیں ہیں۔ ان جھیلوں تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر چار مختلف رنگوں کی بسیں سروس دیتی ہیں جو سرخ، سبز، نارنجی اور گرے رنگ پر مشتمل ہیں۔ سیاح ان بسوں کے لیے ایک پورے دن کا پاس خرید سکتے ہیں یا بس میں موجود ڈرائیور کو فی سواری اور سٹاپ کرایہ بھی دے سکتے ہیں۔ ہم تقریباً آدھے گھنٹے کا سفر طے کرکے آخری سٹاپ پر پہنچے، تو یہی وہ روایتی گاؤں ’’ایاشی ساتونے با‘‘ تھا جس کا مطلب ہے "معالج گاؤں”۔ جاپان کا یہ خوبصورت روایتی گاؤں فوجی پہاڑکے عقب میں جھیل "سائیکو” کے کنارے ایک سرسبز پہاڑی کے دامن میں آباد ہے۔ جب ہم بس سے اترے، تو ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ یقینی طور پر مختلف جگہ تھی۔ کیوں کہ یہاں ہر چیز پرانی مگر باسلیقہ تھی۔ یہاں کے مکانات جاپان کے قدیم روایاتی جھونپڑی نما تھے، جن کی چھتیں سوکھی گھاس پھونس کی بنی ہوئی تھیں۔ باہر سے تو یہ مکانات چھوٹی جھونپڑیوں کی مانند تھے مگر اندر سے یہ لکڑی سے بنی دو منزلہ عمارتوں پر مشتمل تھے۔ جن میں کمرے، ہال، باورچی خانے اور تمام تر سہولتیں میسر تھیں۔ گاؤں کے اندر جانے کے لیے سیاحوں کو باقاعدہ ٹکٹ لینا پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم نے بھی ٹکٹ خریدے اور گاؤں کے اندر داخل ہوئے۔ گاؤں کے اندر جاتے ہوئے اچانک میں نے فوجی پہاڑ کی چوٹی خالی دیکھی، تو ایلس کو ہاتھ کے اشارے سے دیکھنے کو کہا۔ جب اس کی چوٹی پر نظر پڑی، تو اتنی خوش ہوئی کہ بے ساختہ اس کے منھ سے چیخ نکلی اور مجھے تصویر بنانے کا کہنے لگی۔ میں نے بھی لمحہ ضائع کیے بنا فوجی پہاڑ کے ساتھ کئی تصاویر بنائیں۔ فوجی پہاڑ کی چوٹی کو دیکھ کر ایلس پھولے نہیں سما رہی تھی اور اس کی باتوں اور باڈی لنگویج سے اس کی خوشی صاف جھلک رہی تھی۔ یہاں ہر طرف جاپانی تہذیب و ثقافت کے رنگ جھلک رہے تھے۔ ہمیں یوں لگا کہ ہم کسی قدیم جادو نگری میں داخل ہوگئے ہیں۔

جاپان کے روایتی گاؤں میں ایک گھر کا منظر۔ (فوٹو: لکھاری)

جاپان کے اس قدیم روایتی گاؤں میں مختلف آرٹ اور کرافٹ بنانے کی سرگرمیاں ہونے کے ساتھ ایک عجائب گھر بھی ہے، جہاں اس گاؤں سے متعلق مختلف قدیم چیزیں پڑی ہیں۔ اس گاؤں میں چلتے آپ کو گھروں کی دیواروں اور چھتوں سے لٹکتے ہوئے مکئی کے بھٹے اور خشک سبزیاں نظر آئیں گی، تو ایک طرف آرٹ گیلری بھی موجود ہے جس میں قدیم جاپانی پینٹنگ کے فن پارے رکھے ہوئے ہیں۔ گھروں کے بیچ آپ کو قدیم پن چکی بھی نظر آئے گی۔ میں اور ایلس گاؤں کے مختلف حصوں کی سیر کرتے ہوئے محظوظ ہوتے اور ان کی خوبصورتی پر بحث کرتے تصویریں بناتے آگے بڑھتے گئے۔ ایلس اگر ایک طرف خوبصورت تھی، تو دوسری طرف وہ انتہائی باذوق اور ذہین بھی تھی۔ وہ بات کرتی، تو مختلف دانشوروں اور کتابوں کا حوالہ دیتی، یوں لگ رہا تھا کہ وہ علم کی پیاسی تھی جس کے لیے اس نے سیکڑوں کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ وہ باذوق اور فن و ثقافت کی دلدادہ تھی اور تاریخ و تہذیب اور تحریر میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ ایلس اس بات پر بھی خوش تھی کہ میرے پاس ڈی ایس ایل آر کیمرہ تھا جس سے میں اس خوبصورت گاؤں میں اس کی کافی ساری یادگار تصویریں بنا رہا تھا۔ یہ گاؤں زمانۂ قدیم سے اپنی پرانی حالت میں چلا آ رہا تھا مگر بدقسمتی سے سال 1966ء میں ایک سمندری طوفان نے اسے تباہ کر دیا، تاہم جاپانی حکومت نے اس گاؤں کو دوبارہ اسی حالت میں بحال کیا اور تب سے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں۔ اس چھوٹے سے خوبصورت گاؤں کو دیکھ کر جاپان کی قدیم ثقافت اور رہن سہن کے طور طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں کثیر زرِمبادلہ بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ واقعی معالج گاؤں تھا۔ کیوں کہ یہاں آکر ہماری تمام تر حسیں اور اندرونی احساست روحانی قوت حاصل کر رہے تھے۔

 1966ء میں ایک سمندری طوفان نے اس گاؤں کو تباہ کیا تھا، جاپانی حکومت نے اس کو دوبارہ اسی حالت میں بحال کیا۔ (فوٹو: لکھاری)

ماؤنٹ فوجی کے اردگرد سیکڑوں دیہاتوں کے ہزاروں لوگوں کا کاروبار اسی سیاحت سے وابستہ ہے۔ ہم نے جب گاؤں کا تفصیلی دورہ کیا، تو "سائیکو” جھیل جانے کا فیصلہ کیا، جو قریب ہی تھا۔ اس لیے ہم پیدل ہی جھیل ’’سائیکو‘‘ کی طرف روانہ ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد ہم اس چھوٹی سی خوبصورت جھیل کے کنارے تھے۔ فوجی پہاڑ کے عقب میں پانی کا یہ تالاب الف لیلوی داستان والا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہم جھیل کے کنارے گئے اور کچھ لمحات کے لیے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ جھیل سائیکو، فوجی پہاڑ اور یہاں کے رنگ برنگے پھول جو جنت کے کسی باغ کا منظر نامہ پیش کر رہے تھے، تو حسین ایلس کی موجودگی، جنت کی کسی خوبصورت حور سے کم نہیں تھی، ایک الگ سماں باندھ رہی تھی۔ میں نے دل میں ایلس کے ساتھ گزارے ان خوشی کے لمحات کا سوچا، تو دل ہی دل میں معصوم سی خواہش نے انگڑائی لی کہ یہ لمحے مزید طویل ہوجائیں۔ کیوں کہ مَیں وہاں رنگین پھولوں کی خوشبو محسوس نہیں کر رہا تھا، مگر حسین ایلس کے بدن کی خوشبو تمام فضا کو معطر ضرور کر رہی تھی۔

ماونٹ فوجی کا ایک دلفریب منظر (Photo: University of Oxford)

جھیل کنارے بیٹھ کر میری نظر موبائل کی گھڑی پر پڑی، تو چار بج رہے تھے۔ میری واپسی کا ٹکٹ پانچ بجے کا تھا۔ اس لیے ہم وہاں سے اٹھے اور بس سٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً پانچ منٹ بعد بس آئی اور ہم اس میں سوار ہوئے۔ ایلس نے مجھے کہا کہ اس کی واپسی کا ٹکٹ رات کو آٹھ بجے ہے۔ اس لیے جب ہم نے آدھا سفر کیا، تو وہ فوجی پہاڑ کے گرد ایک دوسرے خوبصورت مقام کے لیے بس سے اترنے لگی۔ اترتے وقت اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔ اپنے فیس بک اکاؤنٹ کا ایڈریس دیا اور تاکید سے اپنی تصویریں بھیجنے کا کہہ کر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے اجازت لی اور اتر گئی۔ کچھ لمحوں کے لیے تو میں ہکا بکا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا، مگر وہ خواب نہیں تھا۔ حقیقت تھی، ایلس کے جانے کے بعد میں رنجیدہ سا تھا۔ افسردہ دل کے ساتھ جب میں بس سے اترا، تو "کاوگوچی بس سٹیشن” گیا اور پانچ بجے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھیک پانچ بجے میں ٹوکیو جانے والی بس میں بیٹھ گیا، مگر ایلس کے ساتھ تین چار گھنٹے ماؤنٹ فوجی کے اردگرد رفاقت اور پھر اچانک جدائی اندر ہی اندر گھلانے لگی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے زندگی بھر کا ساتھی جدا ہوا ہو۔ بس چلنے لگی، تو میں اپنی دائیں طرف عظیم فوجی پہاڑ کا نظارہ کرنے لگا۔ اس کی نوکدار چوٹی میں ایلس کے چہرے کا عکس نمودار ہوا جس کی ہلکی مسکراہٹ جیسے مجھے الوداع کہہ رہی ہو۔ (جاری ہے)

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔