آج کا انسان معلومات کے ایک وسیع سمندر میں سر تا پا ڈوبا جا رہا ہے۔ کروڑوں بلکہ اربوں الفاظ، ہندسے معلومات کی فائل میں لپٹے ہوا کے دوش پر چلتے، انٹرنیٹ اور موبائل کی کھڑکیوں سے اُچک کر اور حضرتِ انسان کی سوچ میں داخل ہوکر اُسے منفی یا مثبت طور پر تحریک دے رہے ہیں۔ روحانیت کے علم برداروں کا دعویٰ ہے کہ اسے ہم انفارمیشن تو کہہ سکتے ہیں، مگر نالج نہیں۔ علم تو وہ ہے جو انسان کو انسانیت کا درس دے۔ اللہ کی پہچان دے۔ علم تو انسان کو قربانی کا درس دیتا ہے کہ ہاں ’’خود بھی جیو دوسروں کو بھی جینے کا حق دو۔‘‘ اپنے حصے کی کچھ چیزیں کچھ خوراک دوسروں میں بھی شیئر کرو۔ دوسروں کو وقت دو۔ دوسروں کی زندگی میں مسکراہٹیں بکھیرنے کی تگ و دو کرو۔ کیا ایسا ہو رہا ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ انسان مادہ پرست ہوکر بس آسائشات اور جسمانی سکون کی تلاش میں سرگرداں ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ انسان دوئی کا شکار ہے۔ اس کی فطرت، اس کا ضمیر، اس کا باطن جس روحانی خمیر میں گندھا ہوا ہے، خارجی طور پروہ اس کی نفی کرنے میں جتا ہوا ہے۔ اسی لیے خوف اور بے چینی کا شکار ہے۔ وہ اندر اور باہر سے ایک جیسا نہیں۔ اس نے دو چہرے سجا لیے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اور میں نے انسان میں اپنی روح پھونک دی۔‘‘ انسان خدا سے الگ نہیں۔ اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ پھر کیسے وہ اپنے ضمیر کے خلاف زندگی گزار سکتا ہے؟ کیسے خدا کی پکڑ سے بچ سکتا ہے؟ سچ کے اندر رہنا ہی قلبی سکون کا باعث ہے۔ یہی روحانیت ہے۔ زندگی تو ایک سفر ہے۔ باہر کا سفر، اندر کا سفر، روح کا سفر، باطن کا سفر، آگے کا سفر۔ اور سفر میں بوجھ اٹھا کر نہیں چلنا چاہیے، اسی لیے تو آج انسان پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے اور ذہنی امراض کا شکار ہے۔
اُٹھا رکھی ہیں کیسی گٹھڑیاں ہم نے خدا جانے
کہ سارا بوجھ ذہنوں پر ہے کاندھوں پر نہیں لگتا

زندگی تو ایک سفر ہے۔ باہر کا سفر، اندر کا سفر، روح کا سفر، باطن کا سفر، آگے کا سفر۔ اور سفر میں بوجھ اٹھا کر نہیں چلنا چاہیے۔ (Photo: Al-Rasub)

اسی لیے نفسیاتی و ذہنی امراض کی دلدل میں لوگ ڈوب رہے ہیں۔ رہی سہی کسر غلط سسٹم اور ناانصافی نے پوری کر دی ہے۔ غربت کا عفریت اس پر مستزاد ہے۔ نوے فی صد لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے کولہو کے بیل کی طرح حالات کی چکی میں جتے پسینے سے شرابور، وقت کے چکر میں گھوم رہے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بدامنی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والے وہ بڑے لوگ جن کے اکاؤنٹ بھرے پڑے ہیں، لمبی شاہانہ گاڑیوں میں کروفر سے سفر کرتے ہیں، سرکاری خرچ پر اپنی بیگمات سمیت جب چاہیں دبئی کی شاپنگ کے لیے جاسکتے ہیں، اُن کی شامیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ائیرکنڈیشنروں میں گزرتی ہیں، وہ اپنے دوستوں، بیگمات اور بچوں کے ساتھ اکثر جشن کی اُس حالت میں ہوتے ہیں، جب میزیں انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری ہوتی ہیں، وہ ملک کے سیاسی حالات سے لے کر امریکی مصنوعات، دبئی کی شاپنگ، نئے موبائل ورژن، دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی، غربت اور دہشت گردی پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، بظاہر غریبوں کی زندگی بدلنے کے دعوے کرتے ہیں، افسوس کا اظہار کرتے ہیں مگر اندرونی طور پر مضطرب اور ذہنی سکون سے دور ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ضمیر کی پکار اُنھیں بے چین رکھتی ہے۔ اندرونِ خانہ سے پکار آتی ہے۔ آج تم جس دولت سے عیش و عشرت میں مبتلا ہو۔ یہ کسی غریب کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ وہ غریب جس کے پاس ڈاکٹر کے دینے کے لیے فیس نہیں اور اُس کا کوئی پیارا بیماری میں سلگ رہا ہے۔ وہ بے چارے عوام جن کے کاروبار لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں اور اُن کے گھروں میں غم اور سوگواری کی راکھ اُڑ رہی ہے، اور یہ اندرونی پکار، یہ ضمیر کی آواز مسلسل اُن کے اعصاب سے ٹکراتے ہوئے کہتی ہے، کیوں تم اپنے عوام کے نام پر لگائی گئی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہو؟ کیا اس دولت سے لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کی جاسکتی؟ پھر یہ بے ضمیر بیورو کریٹ اور کرپٹ افسران ان اندرونی آوازوں سے بچنے کے لیے ’’ٹرانکولائیزر‘‘ لیتے ہیں یا پھر موسیقی اور فلموں کی دنیا میں وقتی طور پر ڈوب جاتے ہیں، مگر جب دوبارہ ہوش میں آتے ہیں، تو وہی بے چینی اور ٹینشن انھیں دبوچ لیتی ہے۔ ایسے لوگ آخر میں بچھتاوے کی موت مرجاتے ہیں اور پسماندگان اُن کی وراثت پر بھوکے گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کیوں کہ وہ زندگی کے سفر میں دوئی کا شکار تھے۔ تن کے اجلے من کے کالے۔ کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے دل میں شیطان اور نوکِ زباں پے رحمان تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ تذبذب کی سراب نما زمین پر جیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی خواہشات، عہدوں، اور ڈالروں کو اپنا خدا مانتے ہیں۔ اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
یہ لوگ ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کا اندرونی میکنزم جس انداز سے بُنا گیا ہے۔ آپس کے پرزوں میں یہ انفارمیشن ڈال دی گئی ہے کہ جو چیز موجود نہ تھی، اگر اُسے کوئی ہستی اس دنیا میں لاسکی ہے، تو اُسے توڑ کر پھر بھی بناسکتی ہے۔ اور جب یہ دوبارہ بنے گی، تو پھر اُس سے اُس کے کاموں کا حساب کتاب بھی تو کرنا ہوگا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ہستی نے اتنے توازن سے اتنی وسیع کائنات تو بنا ڈالی، مگر اُس توازن کو بگاڑنے والوں کو پکڑنے سے اور انصاف کی عدالت میں پیش کرنے سے قاصر ہو؟
واہ جناب حضرتِ انسان! کتنا بھولا بن رہا ہے تو۔ ایک باپ اپنے بیٹے کی معمولی سی غلطی پر سزا دے سکتا ہے، ایک زمین دار اپنے کھیت کی فصل کی چوری تو نہیں بھول سکتا، مگر اللہ کی زمین پر انسانوں کے دشمن کو اور برائی کی فصلوں کو بونے والوں کے لیے محاسبے کی کوئی جگہ نہ ہو۔ کیا یہ انصاف کے خلاف نہیں؟ کیا محشر کا نہ ہونا انصاف کے خلاف نہیں؟ آخر وہ لوگ جو سچائی کے لیے لڑ رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں، تکالیف اُٹھا رہے ہیں، گرمی سردی میں اٹھتے ہیں، عبادتیں کرتے ہیں، کیا اُن کے لیے کوئی انعام نہیں ہوگا؟ قرآن بھی کہتا ہے کہ کیا جھوٹ اور سچ برابر ہوسکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوف کی دبیز تہیں اور سائے ہمیشہ گناہ گار اور ظالم کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس لیے نیکی کا راستہ ہی امن، سکون اور سلامتی کا راستہ ہے، بس۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔