افسوس کہ ہم ایک ایسے معاشرہ کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں، جہاں انسانیت کا تصور ختم اور حیوانیت بھرپور شکل میں دکھائی دے گی۔ ہم روئیں تو کون کون سے مسئلہ کو لے کر؟ ہر طرف بے حسی اور بے یقینی کا عالم ہے۔ انسان، انسانیت کو چھوڑ کر شیطان کا روپ دھار رہا ہے۔ بھروسا کریں، تو کس پہ کریں؟ یہاں تو ہر گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے پر مصر ہے۔ ہم دوسروں پر انگلی تو آسانی سے اٹھاتے ہیں، پر کیا اپنی جانب اٹھنے والی باقی چار انگلیوں کو بھی کبھی دیکھا ہے؟ دوسروں پرسوالات کی بوچھاڑ اور تہمت لگانا تو آسان ہے، لیکن کیا اپنے گریبان میں بھی ہم نے کبھی جھانک کر دیکھا ہے؟
کیا ہم جو کر رہے ہیں، اس سے ہمارا ضمیر مطمئن ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہاں! جو بھی کر رہے ہیں ، وہ ٹھیک ہے۔ ہم دن رات یہی رونا روتے پھرتے ہیں کہ ملک کا کوئی ادارہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے گھر کے نظام کو چلانے میں کسی نہ کسی ادارے کا حصہ ضرور ہے، چاہے وہ سکول کاچپڑاسی ہو یا اسپتال کا سربراہ۔ کیا یہاں دودھ بیچنے والا ملاوٹ کے بغیر دودھ بیچتا ہے؟ کیا میڈیکل سٹور والا جعلی ادویہ کے فروغ میں شامل نہیں ہے؟ کیا سکول کا استاد اپنی ڈیوٹی کرنے میں مخلص ہے؟ کیا ووٹ دینے والا سوچ سمجھ کر اس راہنما کو چُنتا ہے جو معاشرے کے لئے کچھ اچھا کرے گا یا صرف ہزار روپے کے نوٹ پر ضمیر کا سودا کیا جاتا ہے؟

ہم دوسروں پر انگلی تو آسانی سے اٹھاتے ہیں، پر کیا اپنی جانب اٹھنے والی باقی چار انگلیوں کو بھی کبھی دیکھا ہے؟ (Photo: muslimeyes.com)

سوال اٹھاؤں تو کس کس ادارے اور کس کس شخص پر؟ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ رونا پیٹنا ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ ہم وحشی درندے کے ہاتھوں مسلی ہوئی ننھی پھول زینب کی کوڑے کے ڈھیر پرخون میں لت پت پڑی اس لاش کو روئیں یا زینب کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھانے والوں کا غم روئیں؟ جن پر پنجاب کی بدمعاش پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ کی تھی؟ یا پھر ان لاشوں پر رویا جائے جو جنوری کی ٹھٹھرتی سرد رات میں بھی سڑکوں پر پڑی رہیں اور اسپتال کی انتظامیہ پوسٹ مارٹم کرنے سے مسلسل انکاری رہی؟ یا ہم رونا روئیں ان ایک سو اسّی بچوں کا، جن کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی اور پھر ان کی قابلِ اعترا ض ویڈیوز بنا کر ان کے گھر والوں کو ایک عرصہ تک بلیک میل کیا جاتا رہا؟ یا ان معصوم گیارہ بچیوں کا رونا روئیں جن کو ایک ہی بھیڑیئے نے اپنی شیطانی ہوس کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کیا۔ اُس درندے کو پکڑنے کی بجائے پنجاب پولیس اسی انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھری بیٹھی رہی کہ کب وہ وحشی بھیڑیا کسی اور ننھی معصوم جان کے ساتھ اپنا شیطانی کھیل کھیل کر اسے موت کی وادی میں بھیجتا ہے۔
قصور میں درندگی کے کئی سو انسانیت سوز واقعات رونما ہونے کے باوجود، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے نوٹس میں ہوتے ہوئے بھی اس کے خلاف کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ نہ ہی متاثرین کو انصاف فراہم کیا گیا۔ الٹا انہیں پنجاب پولیس کی جانب سے انصاف دینے کی بجائے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لیکن ریاست کے ٹھیکیدار خوب جان چکے ہیں کہ ہمارے عوام صرف وقتاً ہی جذباتی ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں نے ان کے غصیلے جذبات کو قابو کرنے کا حل بھی بڑا خوب ڈھونڈ کے نکالا ہے۔ بس آئے، متاثرین کے گھر والوں کے سر پر ہاتھ رکھا، دو تین لاکھ کا چیک پکڑایا، مسکین صورت بنا کر دو تصویریں کھینچیں اور چل دیے۔ ہمارا مذاق بنا دیا گیا ہے یا ہم نے خود بنایا ہوا ہے۔ گھوم پھر کربات وہی آجاتی ہے کہ ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ حکمرانوں کی غفلت سے عام آدمی پر جو بھی مصیبت آتی ہے، اس میں بھی ہم ان حکمرانوں کے برابر کے شریک ہیں۔

حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’کفر کا نظام تو چل سکتا ہے، پر ظلم کا نہیں۔‘‘ (Photo: (Geo Urdu

حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’کفر کا نظام تو چل سکتا ہے، پر ظلم کا نہیں۔‘‘ لیکن اس قول پہ ہم عمل پیرا ہیں بھی یا نہیں؟ قول دہرانے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو ہم ووٹ دے کر ان کے ہاتھوں میں اس ملک کا نظام چلانے کا کام دے دیتے ہیں، کیا کبھی ہم نے ان کو پرکھا بھی ہے؟ جو منشور وہ ہمارے سامنے رکھ کر ہم سے ووٹ مانگتے ہیں، کیا وہ منشور صحیح ہے؟
سو باتوں کی ایک بات، اگر ہم اپنی انا اور ذات کے خول سے نکل کر ملک اور آنے والی نسلوں کا سوچیں، ساتھ سب اپنے حصہ کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائیں، تو پھر وہ دن دور نہیں جب خوشحالی اور امن ہمارا مقدرہوگا۔

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔