70ء کی دہائی تھی۔ بھٹو کی حکومت تھی۔ بھٹو نے نعرہ تو جمہوریت کا لگایا تھا مگر مزاج اس کا آمرانہ تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد پہلے تو وہ خود حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کیلے قطعاً تیار نہ تھا اور جب پاکستان ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش بن گیا اور اختیار بھٹو کے ہاتھ میں آگیا، تو حزبِ اختلاف جو جمہوری نظام کا ایک اہم اور ناگزیر جز ہوتا ہے، بھٹو پھر اپنے خلاف، حزبِ اختلاف کی حیثیت کو دل سے تسلیم کرنے کیلے قطعاً تیار نہ تھا۔ بھٹو کے اس آمرانہ اور شخصی نظام کی وجہ سے حزبِ اختلاف کی مختلف سیاسی جاعتوں نے ’’ متحدہ جمہوری محاذ ‘‘ کے نام سے تنظیم بنا کر بھٹو کے خلاف جلسے جلوسوں کا آغاز کر دیا۔ حمید خان اپنی کتاب ”Constitutional and Political History of Pakistan” میں لکھتے ہیں کہ ’’ متحدہ جمہوری محاذ نے 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کا انعقاد کیا۔ اس جلسے پر پی پی پی کے کارندوں ( جیالوں ) نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 13 لوگ شہید جبکہ 75 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 13 بسوں کو جلایا گیا۔ جو لوگ مارے گئے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی (این ڈبلیو ایف پی) سے تھا۔ یہ نعشیں جب پشاور اور صوبے کے دیگر علاقوں کو پہنچائی گئیں، تو وہاں کے لوگ پنجابیوں کے خلاف مشتعل ہوگئے اور حالات انتہائی کشیدہ تھے ۔ حمید خان لکھتے ہیں کہ یہ کرےڈٹ ولی خان کو جاتا ہے جس نے اپنے صوبے کے لوگوں کو سمجھایا کہ یہ کام پنجابیوں کا نہیں بلکہ بھٹو اور اس کی پارٹی کا تھا اور اس طرح ولی خان نے لوگوں کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کیا۔

جلسے پر پی پی پی کے کارندوں ( جیالوں ) نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 13 لوگ شہید جبکہ 75 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 13 بسوں کو جلایا گیا۔(Photo: goodreads.com)

حمید خان اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ جس کسی کہ دل میں بھی یہ خیال ہے کہ ولی خان پاکستان کے ساتھ وفادار نہیں تھا، اس واقعے کے بعد ان کو اس قسم کے خیالات اپنے دل سے نکال لینے چاہئیں۔ کیوں کہ یہ واقعہ ملک کو خانہ جنگی کے طرف لے جاسکتا تھا جس کے ممکنہ طور پر خطرناک نتائج مرتب ہوسکتے تھے۔ ‘‘
اس طرح سعید خاور جس نے مشہور سیاستدان ’’سردار شیرباز خان مزاری‘‘ سے ہر ہفتے ان کی سیاسی زندگی پر تفصیلاً گفتگو کرکے ان پر ’’سردار شیر باز خان مزاری‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ اس واقعے پر سردار شیر باز خان مزاری کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ’’سانحہ لیاقت باغ کے بعد حکومت نے پراپیگنڈا کیا کہ ملک دشمن سرخ پوشوں نے پنجاب پر یلغار کرکے پنجاب کی غیرت کو للکارا ہے۔ اس طرح پنجاب میں پختونوں کے خلاف زہر اگلا گیا اور غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔ اس موقع پر ولی خان کے کردار کی تعریف نہ کی جائے، تو زیادتی ہوگی۔ سانحہ لیاقت باغ کے شہدا کی نعشیں وہ خود لے کر گئے اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ وہ ہر شہید کے گھر خود گئے اور کہا کہ یہ پنجابی اور پختون کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ایک سازش ہے جس کے تحت پنجابیوں اور پختونوں کو لڑایا جارہا ہے۔ ‘‘
خود ولی خان اپنی کتاب ’’باچا خان اور خدائی خدمتگاری‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’سانحہ لیاقت باغ کے بعد میں شہدا کے فاتحہ خوانی اور زخمیوں کی عیادت کیلے خود چلا گیا اور انھیں سمجھایا کہ یہ کام پنجابیوں کا نہیں بلکہ بھٹو کا تھا۔‘‘ ولی خان مزید لکھتے ہیں کہ اگر میں ایسا نہ کرتا، تو اسکا نتیجہ یہی نکلتا کہ پختونوں اور پنجابیوں کے بیچ قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا جو کہ بھٹو کی خواہش تھی۔

بقول ولی خان، پختونوں اور پنجابیوں کے بیچ قتل و غارت کا بازار گرم کرنا بھٹو کی خواہش تھی۔ (Photo: YouTube)

میں نے اپنے کالم کیلے اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھی ہے، کیوں کہ آج میں سوشل مےڈیا پر شہید نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کی وےڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ایک صاحب مجمع سے خطاب کرتے ہوے فرما رہے تھے کہ نقیب اللہ محسود پر حملہ پنجابیوں کا پختونوں پر حملہ ہے اور یہ اصل میں پنجابیوں اور پختونوں کے درمیان جنگ ہے۔ مجھے مزید حیرانی اس بات پر ہوئی کہ سامنے کھڑے افراسیاب خٹک صاحب بھی یہ باتیں بڑے انہما ک سے سن رہے تھے۔ خیر افراسیاب خٹک، ولی خان سے کتنے وفادار تھے اور وفادار تھے بھی یا نہیں ؟ اس کا پتا تو اس وقت چلتا ہے جب کوئی ولی خان کی لکھی ہویٔ کتاب ’’باچا خان اور خدائی خدمتگاری ‘‘ پڑھتا ہے۔
شہید نقیب اللہ محسود کے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس احتجاج کو بھی جاری رکنا چاہیے، لیکن اگر ہم اس واقعہ کو پنجابی پختون دشمنی سے جوڑیں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شہید نقیب اللہ کے ساتھ مخلص تو نہیں البتہ اس کے قاتل راو انوار کے ساتھ مخلص ضرور ہیں۔ چلو، یہ مان لیتے ہیں کہ شہید نقیب اللہ کو سندھ پولیس نے نہیں بلکہ پنجابیوں نے قتل کیا ہے، مگر پھر ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ مشال خان کو کس نے شہید کیا تھا؟ کیا اس کے قاتل بھی پنجاب سے آئے تھے؟ چلو یہ بھی مان لیتے ہیں، مگر پھربلوچستان کے پولیس کانسٹیبل کو کس نے اپنی گاڑی سے کچل کر شہید کیا تھا؟شاہ زیب خان کو کس نے شہید کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زینب اور ماڈل ٹاؤن کے شہدا جن کا خود پنجاب سے تعلق تھا، انہیں پھر کیوں شہید کیا گیا؟

شہید نقیب اللہ محسود کے قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور اس احتجاج کو بھی جاری رکھنا چاہیے، لیکن اگر ہم اس واقعہ کو پنجابی پختون دشمنی سے جوڑیں گے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شہید نقیب اللہ کے ساتھ مخلص تو نہیں. (Photo: Twitter)

اگر ہم ان تمام واقعات پر غور کریں، تو سوال کا جواب ڈ ھونڈنا انتہائی آسان ہے اور وہ یہ کہ پنجابی، نہ پختون ، نہ سندھی اور نہ ہی بلوچی نے کسی کو قتل کیا ہے بلکہ ان سب کو ہمارے ملک کے غیر مؤثر ’’کریمنل جسٹس سسٹم‘‘ نے قتل کیا ہے۔ ہمارا مذکورہ سسٹم اتنا کمزور اور گھسا پھٹا ہے کہ قاتل کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بے گناہ کو قتل بھی کرے، تب بھی کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ کیوں کہ یہاں مجرم کو پکڑنے اور پھر اسے سزا دینے اور استغاثہ کو اپنے لیے انصاف لینے میں اتنا وقت اور پیسہ لگتا ہے کہ اس کے لیے نوحؑ جتنی عمر، ایوبؑ جتنا صبر اور قارون جتنا مال چاہیے۔ جب تک ’’کریمنل جسٹس سسٹم‘‘ میں اصلاحات نہیں کی جاتیں اور اسے مؤثر نہیں بنایا جاتا، تب تک قاتلوں کے دل میں سزا کا خوف نہیں ہوگا اور تب تک وزیرستان کے نقیب اللہ محسود ہو، پختونوخواہ کا مشال خان ہو یا پھر عاصمہ ہو، پنجاب کی زینب ہو یا ماڈل ٹاؤن والا قتل عام، بلوچستا ن کے پولیس کانسٹیبل حاجی شریعت اللہ ہو یا سندھ کے شاہ زیب خان ہو، یہ ظلم ہوتا رہے گا اور ہم عوام احتجاج کرتے رہیں گے اور پھر جب دوسرا ایسا ظا لمانہ واقعہ وقوع پذیر ہوگا، تو ہم پچھلا والا واقعہ بھول کر نئے واقعہ کے پیچھے لگ جائیں گے۔ اس طرح ہم بھولتے جائیں گے اور حکمران ہماری اسی بیوقوفی کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے صرف مذمت کرتے رہیں گے۔ لہٰذا میری عوام سے درخواست ہے کہ وہ آواز اٹھائیں اور حکمرانوں سے مطالبہ کریں کہ ’’کریمنل جسٹس سسٹم‘‘ میں اصلاحات کریں اور اسے مؤثر بنائیں تاکہ کل کو کوئی راؤ انوار جیسا بھیڑیا نقیب اللہ محسود جیسے معصوم انسان کو قتل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے اور قتل وغارت کا یہ بازار بند ہوجائے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔