ممتاز افغان لیڈر گلبدین حکمت یار نے ایک انٹرویو میں بجا طور پر کہا تھا کہ ’’امریکہ پاکستان کی مخالفت اس کی افغان پالیسی کے باعث نہیں کرتا بلکہ اسے اندیشہ ہے کہ پاکستان کے اقدامات سے ورلڈ آرڈر متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
حکمت یار کا یہ تجزیہ بہت صائب ہے۔ کیونکہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ اور ترکی کی سرزمین پر دھیرے دھیرے ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو موجودہ عالمی نظام جس کی مہار امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، کو کمزور کررہی ہیں۔ امکان ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں نہیں رہے گا۔
حالیہ برسوں میں اور خاص کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ کی سافٹ پاؤر یا انسانی حقوق کے علمبردار ملک ہونے کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جس طرح بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے اعلان کے بعد دنیا نے امریکہ کے برعکس مؤقف اپنایا اور فلسطین کی حمایت کا اعادہ کیا، اس نے امریکی رائے عامہ کو یہ ضرور باور کرایا کہ دنیا پر غلبہ محض دھمکیوں اور دھونس جمانے سے قائم نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اس کے لیے اخلاقی برتری حاصل کرنا پڑتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد امریکہ دنیا پر حاصل اخلاقی برتری تیزی سے کھوتا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی کہلاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار حقیقی معنوں میں طاقت کا توازن امریکہ مخالف قوتوں کے حق میں ہوتا جا رہا ہے۔ خاص کر اس خطے میں پاکستان جو ستر برسوں سے امریکہ کا قریبی حلیف تھا، نہ صرف اس کی گرفت سے نکل چکا ہے بلکہ امریکہ مخالف ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی جو کسی زمانے میں آر سی ڈی (علاقائی تعاون برائے ترقی) کے نام سے ایک معاہدے میں بندھے ہوئے تھے، اب چین اور روس کے بہت قریب ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں نسبتاً گرمجوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔ چنانچہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی پاکستان کی قبولیت میں خاطر خوا اضافہ ہوچکاہے۔

پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات میں نسبتاً گرمجوشی دیکھنے میں آرہی ہے۔ (Photo: Daily Times)

عالمی فورمز پرچین اور روس بڑی ثابت قدمی سے امریکہ کو چیلنج کرتے ہیں۔ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس طرح امریکہ تنہا ہوا، وہ اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان امریکہ کا روایتی حلیف رہا ہے، لیکن وہ اب چین کے اس قدر قریب جاچکا ہے کہ امریکہ کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ سی پیک اور دیگر منصوبوں نے پاکستان کی معیشت میں توانائی کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔ اب پاکستانی نوجوان بھی بڑی تعداد میں تعلیم اور ہنر سیکھنے کے لیے چین کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت نو ہزار پاکستانی چین میں زیر تعلیم ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں 300 منصوبوں پرچینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جن میں 20 ہزار کے لگ بھگ چینی کارکن کام کر تے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین کے بقول 10 ہزار کے لگ بھگ شہری راہداری منصوبے سے ہٹ کر جاری دیگر منصوبوں سے وابستہ ہیں۔

اس وقت نو ہزار پاکستانی چین میں زیر تعلیم ہیں. (Photo: The Frontier Post)

ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں ایک بار پھر زبردست کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔ سابق صدر بارک اوباما کے اقدامات کی بدولت دونوں ممالک کے مابین تعلقات معمول پر آ رہے تھے لیکن ٹرمپ نے ایران کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا، وہ اس امرکی چغلی کھاتا ہے کہ ایران امریکہ محاذآرائی میں اضافہ ہی ہوگا۔
ترکی میں سب سے دلچسپ تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں جن پر بہت کم تجزیہ کاروں کی نظر ہے۔ 2023ء میں معاہدہ لوزان کو ایک سو سال مکمل ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ معاہدہ تمام ہوجائے گا۔ یہ معاہدہ مغربی ممالک نے ترکی پر زبردستی مسلط کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ ختم کی گئی اور اس کے دنیا بھر میں موجود اثاثوں اور املاک سے ترکی دستبردار ہوگیا۔ حکمران خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا۔ ترکی پر پابندی عائد کی گئی کہ وہ پٹرول کی ڈرلنگ نہیں کرے گا۔ اس معاہدے میں طے پایاکہ باسفورس کا شمار عالمی سمندر میں ہوگا اور یہاں سے گزرنے والے تجارتی بحری جہازوں پر ترکی کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گا۔ باسفورس نہر سویز ہی کی طرح عالمی تجارتی گزرگاہوں میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ترک صدر طیب اردوان متعدد مرتبہ اعلان کرچکے ہیں کہ اگلے پانچ برس بعد ترکی ہی نہیں اس خطے کا نقشہ بدل جائے گا۔ ترکی باسفورس سے ہونے والی تجارت پر ٹیکس بھی لگائے گا اور پٹرول بھی نکالے گا۔ اس طرح ترکی دنیا کی دسویں بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا۔ ترکی کے ان عزائم کے بارے میں امریکہ اور مغرب باخبر ہیں اور طیب اردوان کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ ہر موقع پر ان کی بھد اڑاتے ہیں، ان کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں، تاکہ وہ ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن رکھنے کے بجائے علاقائی سطح پر یا پھر کسی عالمی طاقت کے ساتھ تصادم میں الجھ جائیں، تاکہ ترکی کی ترقی کی رفتار سست پڑجائے۔

اگلے پانچ برس بعد ترکی ہی نہیں اس خطے کا نقشہ بدل جائے گا۔ ترکی باسفورس سے ہونے والی تجارت پر ٹیکس بھی لگائے گا اور پٹرول بھی نکالے گا۔ اس طرح ترکی دنیا کی دسویں بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا۔ (Photo: Travelmyne.com)

دنیا میں جس بھی ملک یا شخصیت نے امریکہ کی سرپرستی میں قائم عالمی نظام کو چیلنج کرنے کی کوشش کی، اسے نشانِ عبرت بنایا گیا۔ سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل شہید کرا دیئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ریڈ لائن عبور کی، تو انہیں اپنے ہی مقرر کردہ سپاہِ سالار کے ہاتھوں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ ضیاء الحق نے جوہری پروگرام منجمد کرنے سے انکار کیا اور امریکہ کی مرضی کے برعکس افغان پالیسی چلانے کی کوشش کی، تو بھک سے بہاولپور کی فضا میں اڑادیئے گئے۔
پاکستان نے امریکہ کی مرضی اور منشا کے برعکس خارجہ پالیسی اختیار کی، تو وہ جارحیت پر اتر آیا۔ خاکم بدہن، اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ سرجیکل اسٹرایکس کے نام پر اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں امریکہ کوئی خطرناک مہم جوئی کرسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستانی لیڈر شپ نے سخت جواب دینے کے عزم کا اظہار کیاہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کیا جائے۔ اسے کسی نہ کسی طرح مذاکراتی عمل کا حصہ بنایاجائے۔ بھارت سمیت کئی پاکستان مخالف ممالک کی خواہش ہی ہے کہ پاکستان کی امریکہ کے ہاتھوں پٹائی کرائی جائے، تاکہ وہ اگلے کئی عشروں تک دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ یہ ایک خطرناک جال ہے جس سے بچنے کی کوشش ضروری ہے۔
اس طرح بہت سارے سیاستدان اپنے مفاد اور مقبولیت کی خاطر نعرے بازی کرتے ہیں جو کہ کوئی مفید عمل نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتاہوں کہ قومی وقار کا خیال نہ رکھیں اور امریکہ کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیں، لیکن ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے جس کی مدد سے تصادم سے بچا سکے۔ یہ پیشِ نظر رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک غیر متوازن حکومت ہے۔ اسے امن عالم سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ بسا اوقات ایسا لگتا ہے کہ وہ سابق صدر جارج بش کی طرح جنگوں کے تعاقب میں ہے، تاکہ معرکہ آرائی کی جاسکے۔
غالباً اس عمل کا ایک فائدہ ٹرمپ کو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ داخلی نکتہ چینی سے بچ جائے اور رائے عامہ کی نظریں بیرونی ایشوز پر لگ جائیں۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔