ہم ہر وقت عجلت میں ہیں۔ تیز رفتاری سے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے ارد گرد کئی چیزوں کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں۔ زندگی میں ہم روز بروز بہت سی چیزوں کو ’’مس‘‘ کر رہے ہیں۔ اس عجلت میں ہمیں اس خیر و برکت کا علم ہی نہیں ہوتا، جو شائد ہماری طرف بڑھ رہی ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اس کی اہمیت آج کے دور میں کچھ زیادہ ہی بڑھائی جا رہی ہے اور میڈیا خواہ الیکٹرانک ہو یا پریس سے لے کر فلموں، ڈراموں تک، سب میں دولت کی چکاچوند اور گلیمر کو اس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے کہ حضرت انسان کی آنکھیں خیرہ ہوچکی ہیں۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے پورا کر دی ہے۔ کیا دولت اتنی اہم شے ہے کہ ہماری زندگی اسی تگ و دو کی نذر ہوجائے؟

بقول اشفاق احمد صاحب کہ ’’اصل میں ہماری زندگی اس لیے اجیرن ہوگئی ہے کہ Money کچھ اتنی اہم نہیں۔ اگر زَر اس قدر اہم ہوتا کہ جس قدر ہم سمجھ بیٹھے ہیں، تو ہماری زندگی کا ہر پہلو، ہر زاویہ اس کے قبضے میں ہوتا، مگر یوں نہیں ہے۔ طلوعِ سحر، پُروا کی ہوا، چاندنی رات، کوشش کے بغیر نیند، ڈنٹھل پر جھومتا ٹڈا، اون کے گولے سے کھیلتا بلونگڑا، آپ کی نواسی، بہو کی مسکراہٹ، پوتے کے گالوں پر لگی چھچھی اور ایک بے ساختہ شعر، یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے ساتھ زر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان جیسی لاکھوں چیزیں مفتا مفت ملتی ہیں لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کی جاسکتیں۔‘‘

بابا اشفاق احمد کی فائل فوٹو (Photo: youtube.com)

حضرت شیخ اکبر کے مطابق ’’عیش روپے پیسے کا نام نہیں ہے۔‘‘ گو دولت عیش کا ذریعہ ضرور بن جاتی ہے، اگر کوئی امیر کبیر شخص ہو۔ کوٹھی، کاریں، بنگلے اور دولت کی فراوانی ہو اور کوئی فوجداری مقدمہ اس پر پڑجائے (جیسے بھٹو مرحوم کا واقعہ) تو اُس کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کسی پل آرام نہیں ملتا۔ پتا یہ چلا کہ عیش دولت کا نام نہیں بلکہ وہ قلب سے تعلق رکھتا ہے، جس کا قلب مطمئن نہیں، وہ عیش سے محروم ہے۔ ایک شخص کو دو ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کا حق دار ہے، تو وہ ہر وقت بے چین اور بے مراد رہتا ہے بمقابلہ اس شخص کے جس کو آٹھ سو روپے ملتے ہیں اور وہ خود کو اس کا حقدار بھی نہیں سمجھتا اور اس پر خوش رہتا ہے۔ اب اصلی عیش یعنی غنائے قلبی آٹھ سو والے کو حاصل ہے اور دو ہزار والے کو حاصل نہیں۔ ہر وقت دولت کے بارے میں سوچتے رہنا کہ میری دولت کیوں کم ہے، دوسرے کی کیوں زیادہ ہے؟ کوئی مجھ سے چھین نہ لے، کم نہ ہوجائے، کیا ایسی سوچ کی موجیں ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو بہا کر نہیں لے جائیں گی؟
ہر وقت کوشش میں لگے رہنا۔ بھاگ دوڑ…… کیا ہماری زندگی ہمیں کوشش سے ملی ہے؟ جی نہیں، بغیر کوشش، رشوت اور سفارش کے بے قیمت اور مفتا مفت۔

کچھ لوگ مستقبل کے بارے میں فکر کرکے اپنے حال کو تباہ کرلیتے ہیں۔ کچھ ماضی کو یاد کرکے حال کو بدحال کر دیتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے حال سے لطف اندوز ہونا چاہیے، جو کل ماضی بن جائے گا۔ اچھے دنوں کے انتظار میں ہماری زندگی ختم ہو رہی ہے۔ ایسے لوگ اپنے زمانہ حال کو چھوڑ کر کسی اور وقت سے لگ کر کھڑے ہیں۔ تبدیلی اگر لانی ہے، تو اندر سے لانی ہوگی۔ بیرونی حالات کی تبدیلی روحانی خوشی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔ اگر ایک بونے کو پہاڑ پر کھڑا کر دیا جائے، تو وہ بونا ہی رہتا ہے۔ ہمیں خود شناسی کے رویے میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی۔ اپنے سنہری مستقبل کے لیے دوسروں کی مدد کی توقعات رکھنے والے ہمیشہ ملول اور افسردہ نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ اس کی کاسۂ گدائی میں کوئی کچھ نہیں ڈالتا۔

کچھ لوگ مستقبل کے بارے میں فکر کرکے اپنے حال کو تباہ کرلیتے ہیں۔ ( Photo: Orpington 1st)

انسان جس شے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ جب وہ چیز اُسے نہیں ملتی، تو مایوس اور دل شکستہ ہوجاتا ہے۔ کیا چیزیں اور توقعات اتنی ضروری ہوتی ہیں کہ ہم انھیں اتنا اونچا مقام دیں کہ جب پوری نہ ہوں، تو ٹوٹ کر رہ جائیں؟ ذرا سوچیے کہ کچھ لوگ اور کچھ چیزیں جو ہماری زندگی میں بہت قیمتی تھیں، جن پر ہم جان چھڑکتے تھے، اب وقت گزرنے پر وہ اتنے کم قیمت کیوں ہوگئیں؟ اصل میں ان چیزوں کی قدر و قیمت صرف ہمارے ذہن میں ہوتی ہے۔ حقیقت میں یہ اتنے قیمتی نہ تھیں۔ اب ہمارا یا تمہارا ذہن تبدیل ہوگیا اور یہ سب بھی ختم ہوگئے۔

بچپن میں ہم عید کے لیے نئے جوتوں کا کچھ اور اشتیاق رکھتے تھے اور اب شائد وہ نہیں…… شادی سے پہلے رومانس کی اپنی دنیا تھی اور اب اور۔ اسی طرح آپ تعین کریں آج آپ کے ذہن میں جو خواہشات ہیں، وہ بھی صرف آپ کے ذہن میں اپنی قدر و قیمت رکھتی ہیں۔ آج آپ ان کی تکمیل کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ مضطرب ہیں مگر کل ذہن کی تبدیلی ان کو بھی بے قیمت، بے حقیقت کرکے نظروں سے گرا دے گی۔

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونےوالی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔