میں ایک سالانہ تقریب انعامات میں شریک تھا جس میں سال بھر اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات دیے جا رہے تھے۔ میری بغل والی کرسی پر ایک صاحب براجمان تھے جو اسٹیج پر انعام وصول کرنے والے ہر شص پر لفظوں کے تیر برسانے میں مصروف تھے۔ جب کوئی اسٹیج پر آتا، تو یہ صاحب کبھی طنزیہ مسکراہٹ، تو کبھی یہ کہہ کر کہ ’’انعام لینے والا صحیح معنوں میں اس کا مستحق ہی نہیں ہے‘‘ ہر کسی کا تمسخر اڑا رہا تھا۔ وہ بار بار میری طرف دیکھ کر مجھ سے اپنی ہاں میں ہاں ملوانا چاہ رہا تھا۔ اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کے بعد آخر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا: ’’بھئی، آپ کو بھی کوئی ایوارڈ ملنے والا ہے کیا؟‘‘ یہ سن کر پہلے تو وہ کچھ حواس باختہ سا ہوا، پھر کہنے لگا: ’’نہیں مجھے ایسے ایوارڈ کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ میں نے استفسار کیا کہ آپ کا ایوارڈ اس میں ہے یا نہیں؟ اس کا جواب حسب توقع لفظ ’’نہیں‘‘ میں ملا اور اسکے بعد اسکے غبارے سے جیسے ہوا ہی نکل گئی اور چپ ہوگیا۔
یہ تو تھا ایک معمولی سا واقعہ لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، تو اندازہ ہوگا کہ بعض لوگ صرف گفتار کے غازی، تنقید، کھینچا تانی اور عیب نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں جنہیں اس کے سوا شاید کچھ اور آتا ہی نہیں۔ ہر کام میں عیب نکالنے اور تنقید کرنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت چیزیں صرف اس لیے ہمارے سامنے نہیں آتیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اس ایک جملے نے ہمارے کئی ارمانوں کاخون کردیا ہے اور اب بھی یہ جملہ ہر خواب اور ہر خواہش کے آڑے آتا ہے۔ لوگوں کا یہ خاص طبقہ جو خود کچھ کرتا ہے اور نہ دوسروں کو ہی کرنے دیتا ہے، معاشرے کا بڑا نقصان کر رہا ہے۔

ہر کام میں عیب نکالنے اور تنقید کرنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت چیزیں صرف اس لیے ہمارے سامنے نہیں آتیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ (Photo: pehub.com)

اس طرح ہمارے ہاں عملی کام کی بجائے زبانی باتوں کا رواج عروج پر ہے۔ چاہے ہمارے بعض نام نہاد سیاستدان ہوں یا عام لوگ، زبانی باتوں میں ماسٹرز کی ڈگری لیے لوگوں کا یہ طبقہ عملی کام سے بالکل نا واقف ہے۔ اس رواج کی وجہ سے نیا ٹیلنٹ نا پید ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ہر ایک کو لوگوں کی فکر ہوتی ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ایسے لوگوں کو اگر ہم کیٹیگری دینا چاہیں، تو ان لوگوں کو ڈھیر ساری کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسا کہ نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے، بے جا ٹانگ اڑانے والے، تنقید برائے تنقید کرنے والے، بہتان تراشی و الزام تراشی کرنے والے، عیب نکالنے والے وغیرہ۔

آج اگر ہماری حالت بہتر نہیں اور ہمارے معاشرے میں بگاڑ موجود ہے، تو یقیناً اس میں لوگوں کے اس خاص طبقہ کا کلیدی کردار ہے۔ انہی لوگوں کی باتوں کی وجہ سے کئی گھر اجڑ چکے ہیں اور اب بھی اجڑ رہے ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے ہمارے ہاں قابلیت کا فقدان ہے اور انہی لوگوں کی وجہ سے ایک ڈر پھیلا ہوا ہے جو کسی کو صرف اس لیے کام کرنے سے روکتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اگر کوئی اپنا دیرینہ خواب پورا کرنا چاہتا ہے، تو لوگوں کی باتیں آڑے آتی ہیں۔ اگر کوئی وطن عزیز کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، تو یہی لوگ اسے خود غرض اور لالچی کہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں کے کاموں پر انگلی اٹھاتے ہیں، خود کچھ نہیں کرسکتے۔ ہمارے معاشرہ میں اگر نیکی کی غرض سے کوئی کسی کی مدد کرتا ہے، تو اسے بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ اگر کوئی کسی نئی چیز کو سامنے لانا چاہتا ہے، تو بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کے اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر چیز کو منفی زاویے سے اگر دیکھا جائے، تو اس سے مثبت زاویے کا وجود ختم ہوجاتا ہے جو کوئی نیک شگون نہیں۔

اب اگر لوگوں کو بدلنے کی کوشش کریں، تو یہ ایک ارتقائی عمل ہے جس کے لیے بہت ساری محنت اور ڈھیر سارا وقت درکار ہوگا۔ اجتماعیت کی بجائے اگر انفرادیت کی بات کی جائے، تو پھر آسان ہے۔ کچھ کرنے کا حوصلہ، ہمت اور محنت کا سہارا لے کر کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ نیوٹن، آئن سٹائن، گراہم بیل، ارسطو، گلیلیو ان سب کو تضحیک کا نشانہ بننا پڑا تھا لیکن یہ اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سے ثابت قدم رہے۔ اور تو اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال لیجیے کہ اللہ کا نبی ہونے کے باوجود کس طرح وہ لوگوں کے مذاق اور تنقید کا نشانہ بنے لیکن آپ ڈٹے رہے۔

آج اگر انجن، کیمرہ، موبائل، بلب اور ٹی وی وغیرہ ہمارے درمیان موجود ہیں، تو یہ انہی لوگوں کی محنت، لگن اور کچھ کر دکھانے کے جذبے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا کبھی بھی لوگوں کی باتوں میں آکر ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ثابت قدم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوگوں کی باتوں سے کبھی نہیں ڈرنا چاہیے۔

………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔