دریا کا بہتا پُرسکون آبِ رواں جب بے سکون ہوکر اپنے پاٹ میں پھیلتے پھیلتے کناروں کو پھلانگ کر بستیوں کو اجاڑنے پر تل جاتا ہے، تو اسے سیلاب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح محبت جب اپنی حدوں سے نکل کر انہتا تک پہنچ جاتی ہے، تو عشق کاروپ اختیار کرلیتی ہے۔
عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی، دونوں میں انسان اپنے آپے میں نہیں رہتا۔ کوئی اپنے محبوب کے حصول کے لیے تیشے سے دودھ کی نہر کھودتے کھودتے جان دے دیتا ہے۔ کوئی آتشِ نمرود میں بنا سوچے کود پڑتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ابلیس نے بھی عشق کیا تھا۔ اور ایسا عشق رچایا کہ ساری انسانیت کو بہکانے کے لیے بے خطر خدائے لازوال و عظیم تر سے ٹکر لے بیٹھا۔ اُس کا عشق اپنے نفس اور اپنی جھوٹی انا سے تھا۔ اُس نے قسم کھائی: ’’آج سے میں تیرے ہر بندے پر ہر طرف سے وار کروں گا، اُس کے دل میں تیرے عشق حقیقی کا نشہ اُتارنے کے لیے، نفسانی خواہشات سے بھرا تریاقی زہر بھروں گا۔ انھیں آپس میں لڑواؤں گا۔‘‘
زمین کے سینے پر رحمان اور شیطان کے درمیان جنگ شروع ہوئی۔ نور اور ناری کے شعلے لپکے، روح اور جسم، میدان جنگ بن گئے۔ آج شیطانی ہتھیار رحمانی بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے میدان جنگ میں اُتر چکے ہیں۔ شیطان کا پہلا وار ہمارے سب سے پہلے پیغمبر اسلامؑ کو بے لباس کرنے پر ہوا تھا۔ وہی داؤ آج بھی اُس کا اور اُس کے ایجنٹوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے جنسی بے راہ روی کو عام کیا جا رہا ہے۔ آٹا، دودھ، گھی، دالیں اور دیگر خوراکی اشیاء مع بجلی کے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں مگر موبائل اور انٹرنیٹ کے آلات سستے سے سستے ہوتے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ شیطان کے چیلے ان ہتھیاروں سے مسلمان نوجوانوں پر جنسی یلغار کرچکے ہیں۔ عورت کی برہنگی اتنے تواتر سے اور ہر زاویے سے اور ہر سائٹ پر دن کے چوبیس گھنٹے دکھائی جارہی ہے کہ اب سیکس کے مناظر ایسے معمول کے انداز اختیار کرچکے ہیں جیسے ہم روزانہ چائے پیتے ہیں۔ آپ نے کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن کے لیے کوئی سائٹ کھولنے کی ضرورت محسوس کی، اُدھر جھٹ سے ابلیس کی نمائندہ گوری عریاں چڑیل آپ کی اسکرین پر براجمان ہوچکی ہوگی۔ وہ ہر زاویے سے آپ پر وار کرے گی۔
سوشل میڈیا پر شیطان کے ایجنٹ مختلف عریاں ویڈیوز کچھ اس انداز سے پھیلاتے ہوئے نظر آئیں گے: ’’وینا ملک نے کس طرح پاکستان کو بدنام کیا‘‘، ’’اس ویڈیو کو اٹھارہ سال سے کم عمر افراد نہ دیکھیں‘‘، ’’شادی سے پہلے اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں، زندگی شاد کام گزرے گی‘‘۔

’’اس ویڈیو کو اٹھارہ سال سے کم عمر افراد نہ دیکھیں.‘‘ (Photo: Youtube)

ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس شیطانی چرخے یعنی انٹرنیٹ میں سیکس کی کئی سائٹس باقاعدہ کھلی ہوئی ہیں۔ ایک ’’ایپلی کیشن‘‘ جس کا نام ’’ٹاکنگ ٹام‘‘ ہے، جو ٹچ کرنے پر متحرک ہوتی ہے اور آپ کی آواز کو دوبارہ دھراتی ہے۔ ’’اسی ٹاکنگ ٹام‘‘ کا ایک نقلی ’’ایپ‘‘ بھی مارکیٹ میں چل پڑا ہے۔ اُسے جب آپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، تو آپ کے موبائل ’’مینو‘‘ میں تو اُسی بلی کی شکل میں تصویری خاکے میں موجود رہتا ہے، مگر بیک گراؤنڈمیں آٹومیٹک طریقے سے رننگ کرتے ہوئے یہ مکمل پورن ویڈیوز کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے بار بار آپ کو تصویری نوٹ بھیجتا رہے گا۔ یہ مکمل عریاں سائٹ ہے اور نوجوانوں کو جنسی مریض بنا رہی ہے۔
اسی اسٹائل کی اور بھی کئی خفیہ سائٹس اپنی ’’ایپس‘‘ کے ذریعے گندے مواد کی ترسیل بالکل فری میں کرتی ہیں۔ ہمارے نشریاتی ادارے، نجی ٹی وی نٹ ورکس اور موبائل کمپنیاں ان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ اسی لیے بہت ہی سستے پیکیج متعارف کرائے جارہے ہیں۔ راتوں کو فری منٹس دیئے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’ایم بی‘‘ اور ’’منٹس فری‘‘ کی آفرز اور اشتہارات آ رہے ہیں۔ یہ سب شیطان اور سودی نظام کے بانی اور وقت کے سامراج امریکیوں اور یہیودیوں کے زیر انتظام ہو رہا ہے۔

سیکس کی دو تہائی ’’ایپس‘‘ ہندوستانیوں کی ہیں۔ (Photo: The Daily Beast)

سیکس کی دو تہائی ’’ایپس‘‘ ہندوستانیوں کی ہیں۔ پیسہ بھی کما رہی ہیں اور مسلمانوں کو بھی کمزور کررہی ہیں ’’یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔‘‘ ایک لحاظ سے یہودی اور ہندو ’’نظریاتی جنگ‘‘ جیت چکے ہیں۔ رونے کا مقام ہے کہ وہ باپ جو اپنے سرمائے اور قیمتی وقت سے اپنے بچے کو بڑی مشکل سے پندرہ بیس سالوں میں نیک، باحیا، پڑھا لکھا اور کار آمد شہری بناتا ہے مگر یہ شیطانی ایجنٹ اُسے پندرہ بیس دنوں میں بے حیائی کی دلدل میں ڈبو دیتے ہیں۔ پھر اس ’’عشق‘‘ کا تریاق کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے۔ بے داغ جوانی جب داغدار ہوجاتی ہے، تو قوم کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ زمانے کی آنکھوں میں جب حیا نہیں رہتی، تو قوم کی بیٹیاں گرسنہ نگاہوں کی شکار بن کر سہمی سہمی رہتی ہیں یا پھر بیٹوں کے ساتھ ساتھ زمین بھی بانجھ ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ دھرتی کی کوکھ میں اُمید کی فصل بونے والے ہاتھ مفلوج ہوچکے ہوتے ہیں۔

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔