امریکی وزیردفاع جیمز میٹس اور پاکستانی حکام بالخصوص جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین بے تکلف انداز اور ماحول میں دوطرفہ امور پر گفتگو ہوئی۔ پاکستان کی ذمہ دارشخصیات نے ایک ایک نکتے کا نہ صرف مدلل جواب دیا بلکہ امریکی وزیرِ دفاع کو پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے اور اس کے خدشات کو وزن دینے پر آمادہ کیا۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق جیمز میٹس کی گفتگو کا محور وہی روایتی دومطالبات تھے، تاہم اندازِ گفتگو بدلا ہوا اور معقول تھا۔ انہوں نے ہر ملاقات میں لگ بھگ پاکستان کی قربانیوں اور شدت پسندوں کو لگام دینے کی کوششوں کی تحسین کی۔ ان کاپہلا مطالبہ تھا کہ پاکستان کے اندر طالبان یا افغان حکومت کے مخالف گروہوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ پاکستان طالبان لیڈرشپ کے ساتھ امریکہ اور افغان حکومت کے مذاکرات بحال کرانے میں کردار اداکرے۔
اسلام آباد میں بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور بعد ازاں جنرل باجوہ کے ساتھ جیمز میٹس کا اندازِ گفتگو مفاہمانہ اور رویہ دوستانہ تھا۔ انہوں نے پاکستانی نقطۂ نظر توجہ اور تفصیل کے ساتھ سنا۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کا احترام سے ذکر کیا۔ ان کا اصرار تھا کہ اختلاف رائے کے باوجود دونوں ممالک باہمی اشتراک کی راہ تلاش کرسکتے ہیں۔
دارالحکومت کے پالیسی ساز حلقوں میں محسوس کیا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں استحکام اور اپنی افواج کے انخلا کے لیے پاکستان پر ایک بار پھر بھروسا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اسی لیے گذشتہ تین ماہ میں جیمز میٹس کے علاوہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن، سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور جنوبی ایشیا کے لیے صدر ٹرمپ کی مشیر لیزا کرٹس نے پاکستان کے دورے اور اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں۔

پالیسی ساز حلقوں میں محسوس کیا جاتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں استحکام اور اپنی افواج کے انخلا کے لیے پاکستان پر ایک بار پھر بھروسا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ (photo: nymag.com)

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور جنرل قمر باجوہ نے لگ بھگ ایک ہی لائن اختیار کی اور دونوں ایک ہی صفحے پر تھے۔ جیمز میٹس کو بتایا گیا کہ پاکستان کے اندر طالبان یا حقانی نیٹ ورک کی موجودگی خارج از امکان ہے۔ گذشتہ تین برس میں فوجی آپریشنز کے ذریعے تمام علاقوں کو دہشت گرد گروہوں سے خالی کرالیا گیا ہے۔ اگر امریکہ کے پاس ٹھوس معلومات ہوں، تو پاکستان کے ادارے نہ صرف آپریشن کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ امریکہ کو بھی آپریشن کی تصدیق کرنے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ حکام نے امریکیوں سے کہا کہ ابھی تک پندرہ لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں۔ یہ امکان موجود ہے کہ دہشت گرد مہاجرین کے لبادہ میں کیمپوں میں چھپے ہوں۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری مہاجرین کو واپس بھیجنے میں پاکستان کی معاونت کرے۔ ایک بار افغان مہاجرین وطن لوٹ گے، تو پھر طالبان کو کوئی جائے پناہ دستیاب نہ ہو گی۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور جنرل قمر باجوہ نے لگ بھگ ایک ہی لائن اختیار کی اور دونوں ایک ہی صفحے پر تھے۔ (Photo: Dawn)

جنرل میٹس کو یقین دلایاگیا کہ 2018ء کے آخر تک پاک افغان سرحد کا ایک انچ بھی ایسا نہ ہوگا جہاں پاکستانی فوجی کی کڑی نگرانی نہ ہوگی۔ 532 ملین ڈالر کی لاگت سے 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے دیوار تعمیر کی جاری ہے اور اس کے اوپر باڑ بھی لگائی جانی ہے۔ جوعلاقے دراندازی کے لیے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، وہاں چالیس کلومیٹر طویل اور دس فٹ اونچی دیوار کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔ سرحد کی نگرانی کے لیے سات سو پچاس پوسٹیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ جن میں سے ایک سو اسّی کے قریب تیار ہوچکی ہیں۔ طورخم اور چمن سرحد پرافغانوں کی پاکستان آمدو رفت کو ریگولیٹ کر دیاگیا، تاکہ دونوں ممالک کے مابین غیر قانونی آمد ورفت کا سلسلہ روکا جاسکے۔ جیمز میٹس سے شکوہ کیاگیا کہ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں امریکیوں اور افغانوں نے نہ صرف ہمار ا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے دراندازی روکنے کے لیے سرحد پر ایک سوپچاس پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں۔ ڈرون اور جدید آلات بھی نصب کر رکھے ہیں، تاکہ چوبیس گھنٹے سرحد کی نگرانی کی جاسکے۔ اس کے برعکس افغان فوج کی محض اکیس پوسٹیں ہیں، جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ افغان فوج سرحد پر قانونی آمدرفت روکنے میں سنجیدہ نہیں۔

532 ملین ڈالر کی لاگت سے 2600 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے دیوار تعمیر کی جاری ہے اور اس کے اوپر باڑ بھی لگائی جانی ہے۔ (Photo: Dawn)

پاکستانی حکام نے جیمز کو بتایا کہ وہ پہلی بار پاکستان کا دورہ کررہے ہیں لیکن قبل ازیں ان کے ہم منصب اور دیگر امریکی عہداروں کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گردوں کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کی گئیں لیکن ان کے خلاف قابل ذکر ایکشن نہیں کیاگیا۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان تعاون کے لیے تیار ہے لیکن آپ کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا پڑیں گی۔ آپ کی حکومت پاکستان کے مسائل کم کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ بھارت کو افغانستان میں کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے۔ پاکستان کی شکایات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ بھارت افغان سرزمین کو بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن امریکی حکومت اسے روکنے کے بجائے حقائق سے چشم پوشی کرتی ہے۔ یہ وہ پیغام تھا جو پاکستانی قیادت نے امریکی وفد کو دیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جب امریکی وفد کی طرف سے فراہم کی جانے والی مالی امداد کا ذکر کیا گیا، تو پاکستانی نمائندوں کا جواب تھا کہ ہم نے آپ سے ابھی تک بندرگاہوں، ائیرپورٹوں اور شاہراہوں کے استعمال کا حساب ہی نہیں کیا۔ اگر ہم نے نائن الیون کے بعد سے حساب کتاب شروع کر دیا، تو آپ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

پاکستان کا گلہ رہا کہ بھارت کو افغانستان میں کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے۔ (Photo: Hindustan Times)

پاکستانی حکام کی بدن بولی اور امریکیوں کے ساتھ بدلا ہوا اندازِ گفتگو اس امر کی چغلی کھاتا ہے کہ پاکستان خلوص کے ساتھ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا خواہش مند ہے لیکن وہ امریکہ کے ناجائز مطالبات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ خاص طور پر وہ بھارت کے افغانستان میں موجودہ کردار اور امریکہ کی شہ پر اس میں اضافے سے سخت ناخوش ہے۔ یہ وہ واحد مسئلہ ہے جس پر پاکستان ایک بے لچک مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے اور اس مؤقف کی قیمت چکانے کے لیے بھی تیار نظر آتا ہے۔ امریکہ پہلے ہی پاکستان کی معاشی او رفوجی امداد میں معتد بہ کمی کرچکا ہے اور ہر سال مالی امداد میں نمایاں کٹوتی کر دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اس برس پاکستان کو 526 ملین ڈالر ملے جو اگلے سال محض345 ملین ڈالر رہ جائیں گے۔ چنانچہ پاکستانی اداروں کے لیے بھی کوئی ترغیب نہیں کہ وہ امریکہ کے مطالبات پر دھیان دیں۔
صدر ڈونلڈٹرمپ کی طرف سے اُس چند ماہ قبل اگست میں کی جانے والی پاکستان مخالف تقریر کے بعد جو ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی تھی، وہ رفتہ رفتہ جھاگ کی طرح بیٹھ رہی ہے۔ فوری خطرات ٹل گئے ہیں لیکن یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ امریکی اپنے مطالبات دہراتے رہیں گے۔ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے طویل المدت مفادات کے لیے کیا اقدامات بہتر ہوسکتے ہیں؟ شدت پسندگروہوں کی پاکستان پہلے ہی سرکوبی کر رہا ہے اور یہ سلسلہ بلاکسی رکاوٹ کے جاری رہنا چاہیے۔ افغانستان سرحد پر لگنے والی باڑ اور دیوار بھی امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردوں کی آمد ورفت کو روکنے کا باعث بنے گی۔ افغانستان میں امن و استحکام کی ہر کوشش کا ساتھ دینا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ خواہ امریکہ اس کا مطالبہ کرے یا نہ کرے۔

…………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔