این ٹی ایس کی مہربانی دیکھئے۔ آج سے کوئی سات سال پہلے اس ادارے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس کا کام تھا اداروں اور ملازمت کے لیے اپلائی کرنے والوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا، ان سے ٹیسٹ لینا اور ٹیسٹ کے بعد میرٹ تیار کرنا، میرٹ کے بعد بھرتی کی ذمہ داری متعلقہ ادارے پر عائد ہوتی ہے، جو ’’اسامیاں‘‘ دیتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ این ٹی ایس کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔ شفافیت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ لوگوں اور اداروں کو اس پر اعتماد ہے۔ اس کا ٹیسٹ معیاری ہوتا ہے۔ سکیورٹی اور رازداری کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کا عملہ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے۔ امیدواروں کے ساتھ تعاؤن بھی کیا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کے دوران میں نقل اور دیگر ذرائع کے سدباب کرنے کی کافی کوشش کی گئی ہے۔
یوں پاکستان میں این ٹی ایس کی دیکھا دیکھی دیگر کچھ ادارے بھی وجود میں آگئے۔ انہوں نے بھی اس طرح کے آبجیکٹیو ٹائپ ٹیسٹ متعارف کرائے۔ حکومتوں نے انہیں بھی اسامیاں پُر کرنے کے لیے ٹیسٹ سونپے، لیکن ان کی کارگردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اکثر سیٹیں غائب ہوجاتی ہیں۔ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس کی تقرری ہوئی ہے اور کس کی نہیں؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ این ٹی ایس کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔ شفافیت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ لوگوں اور اداروں کو اس پر اعتماد ہے۔ اس کا ٹیسٹ معیاری ہوتا ہے۔ سکیورٹی اور رازداری کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کا عملہ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے۔ (Photo: dailytimes.com.pk)

لیکن این ٹی ایس کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ دیگر حکومتی اداروں کے بہ نسبت خیبر پختون کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں این ٹی ایس کی کارکردگی اعلیٰ ہے۔ اسامیاں مشتہر کرنے سے لے کر آخری میرٹ لسٹ تک یہ ادارہ باریک بینی سے کام کرتا ہے۔ ہر ایک آدمی کے کوائف کی پوری جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ سوالات اور اعتراضات کے لیے ممکن وقت فراہم کیا جاتا ہے۔ شکایات کا اِزالہ کرنے کوشش کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ کے دوران میں امیدواروں کی صحت کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں صحت سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی دوسرے کی جگہ ٹیسٹ نہیں دے سکتا۔ گیٹ پر شناختی کارڈ اور رول نمبر کے ذریعے امیدوار کی شناخت کی جاتی ہے۔ امتحان ہال میں دستخط لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک الگ صفحے پر نشان انگشت ثبت کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کیمرے کے ذریعے ہر ایک کی تصویر محفوظ کی جاتی ہے جس سے اس بات وضاحت ہوجاتی ہے کہ کوئی کسی دوسرے کی جگہ ٹیسٹ نہیں دے رہا۔
خیبر پختون کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اب تک این ٹی ایس کے ذریعے جتنی بھرتیاں ہوئی ہیں، ان میں شفافیت کا عنصر نمایاں ہے۔ کئی مرتبہ میرٹ لسٹ لگایا جاتا ہے۔ امیدواروں سے انٹرویو کے دوران میں ان کے کاغذات کی جانچ پڑتا ل کی جاتی ہے۔ کسی نے اگر کوئی بات ٹیسٹ فارم میں لکھ دی ہے اور حقیقت میں وہ اس کے پاس ہے نہیں، تو انٹرویو میں اس کو حذف کیا جاتا ہے۔ ڈگریوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ نمبرات دیکھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کہیں جاکر فائنل میرٹ لسٹ لگایا جاتا ہے اور پھر آرڈر جاری کیے جاتے ہیں۔
لیکن ادب کے ساتھ ایک عرض ہے۔ ان سب خصائص کے باوجود ایک خامی ایسی بھی ہے جو ہمیں ’’کارپوریٹ دنیا‘‘ کی بے ایمانی اور منافقت دکھاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ این ٹی ایس کے ایک فارم کی فیس جس میں پانچ سکولوں کے لیے اپلائی کیا جاتا ہے، 700 روپے ہوتی ہے۔ 609 روپے ایک فارم کی اصل فیس ہے۔ 91 روپے 15 فیصد کے حساب سے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگایا جاتا ہے ۔ یوں ایک امیدوار سے ایک فارم کے 700 روے وصول کیے جاتے ہیں۔ موجودہ اشتہار کے مطابق ایک نوجوان جس نے بی اے پاس کیا ہو، وہ بیک وقت تقریباً تمام اسامیوں کے لیے اپلائی کرسکتا ہے۔ کیوں کہ ان میں سے ’’پروفیشنل ڈگری‘‘ کا شق ختم کیا گیا ہے۔
جب ایک امیدوار مثلاً پانچ اسامیوں کے لیے اپلائی کرے گا، تو اس کے 3500 روپے بنتے ہیں۔ کورئیر کے ذریعے فارم بھیجنے کی فیس اس کے علاوہ ہے۔ 609 کے حساب سے ایک امیدوار کے 3045 روپے بنتے ہیں۔ 455 روپے جنرل سیلز ٹیکس میں امیدوار سے کاٹے جاتے ہیں۔
ذرا یہ منطق ملاحظہ فرمائیں۔ ٹیکس منافع بخش اداروں پہ لگتا ہے کہ نوکری کے لیے درخواست دینے والے امیدواروں پر؟ سیلز ٹیکس کا مطلب یا تو میں اورآپ نہیں جانتے یا پھر این ٹی ایس اور حکومت والے نہیں جانتے۔ سیلز کا مطلب یہی ہوتا ہے ناں کہ جب کاروبار کی مد میں آمدنی ہوئی، تو اس میں سے کچھ راتب حکومت کے کشکول میں ڈال دیا جائے۔ مجھے ذرا سمجھائیں کہ ایک غریب بے روزگار جب نوکری کے لیے اپلائی کرتا ہے، تو وہ کون سا کاروبار کرتا ہے؟ کیا وہ نوکری فروخت کرتا ہے یا پھر اسے خریدتا ہے؟ اگر نہیں، تو سیلز ٹیکس اس پر کیوں لگایا جاتا ہے؟ کیا یہ ٹیکس این ٹی ایس پر بطور ادارہ کے لگا ہے یا ایک عام شہری پر اس جرم کی پاداش میں کہ وہ سرکار کی نوکری کے لیے درخواست دے رہا ہے ؟

ٹیکس منافع بخش اداروں پہ لگتا ہے کہ نوکری کے لیے درخواست دینے والے امیدواروں پر؟ (Photo: defensetax.com)

جنابِ من! یہ 91 روپے بخشئے مت۔ یہ ظلم ہے۔ زیادتی ہے۔ یہ ہزاروں نوجوانوں کی جیب پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس جرم میں حکومت اور این ٹی ایس برابر کے شریک ہیں۔ یہ اس پالیسی میں شریک تمام ننگے سیاستدانوں کی شرمناک کہانی ہے۔ انہیں غریب نوجوانوں کی جیبوں پر نظر ہے۔ انہیں ٹیکس نامی ناسور کو عوام پر ہر طرح سے مسلط کرنے کی فکر ہے۔ ایک ایک پراڈکٹ پر کس کس چور دروازے سے، ایک ایک اکاؤنٹ سے کس طرح چوری چھپے یا پھر ٹیکس کے نام پر پیسے کاٹے جاتے ہیں۔ یوٹیلیٹی بلز میں کس طرح دراندازی کرکے عوام کو لوٹا جاتا ہے۔ یہ استحصال ہے ان نوجوانوں کا جو بے روزگار ہیں، جن کی نظریں تھک گئی ہیں۔ اس ایک خط کی طرف جس میں ان کی مستقبل کی بہتری کی نوید ہو، جن کی خوابیدہ صلاحتیں زنگ آلود ہورہی ہیں۔ محض اس واسطے کہ کوئی ان کی انگلی تھامنے والا نہیں، جن کے خوابوں کے آنگن اجڑے ہوئے ہیں، صرف اس لیے کہ ان پاس پیسے نہیں۔ ان کے پاس نوکری نہیں۔ ان کے پاس مستقبل کی سکیورٹی نہیں لیکن پھربھی انہیں لوٹا جاتا ہے جن کی جیب میں ایک پائی تک نہیں۔جی ہاں، جن کی جیب میں ایک پائی تک نہیں۔

………………………………..

لفظونہ انتطامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔