تاشقند اور سمرقند کا قدرتی حسن اور دلفریب نظارے دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ازبکستان کے ان شہروں کے گرد و نواح میں جس قدرسفر کرتے جائیں، یہ تصور پختہ ہوجاتاہے کہ واقعی یہ ایک پرستان ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اس ملک کے باسیوں نے سوویت یونین سے آزادی کے بعد ترقی اور خوشحالی کا سفر نہ صرف جاری رکھا بلکہ آج کا ازبکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور طاقتور ملک کے طور پر خطے میں ہی نہیں بلکہ عالم میں شناخت پیدا کر رہا ہے۔ تین کروڑ سے کچھ زائد آبادی والے اس ملک کو دیکھ کر اور کچھ دن یہاں گزار کر اندازہ ہوتا ہے کہ سارا نظام ایک خودکار سسٹم سے مربوط ہے۔ پولیس یا فوج کا نام و نشان ہی نظر نہیں آتا، لیکن حکومت اور قانون کا دبدبہ ہرجگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ لوگ پُرسکون اور خوش وخرم نظر آتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔ پہلی نظر میں ہی ازبکستان ایک ترقی یافتہ اور جدید ملک نظر آتا ہے۔

تین کروڑ سے کچھ زائد آبادی والے اس ملک کو دیکھ کر اور کچھ دن یہاں گزار کر اندازہ ہوتا ہے کہ سارا نظام ایک خودکار سسٹم سے مربوط ہے۔ پولیس یا فوج کا نام و نشان ہی نظر نہیں آتا، لیکن حکومت اور قانون کا دبدبہ ہرجگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ (Photo: usbekistan.at)

تاشقند اور سمرقند نہ صرف کشادہ اور بلند و بالا عمارتوں سے مزین ہیں بلکہ یہ دونوں شہرتاریخی واقعات کے امین بھی ہیں بلکہ بے شمار سیاسی اور سماجی معرکوں کی یادیں بھی اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں۔ شہر کا کوئی کونہ کھدرا ایسا نہیں جہاں کوئی بڑی تاریخی عمارت نہ ہو یا پھر یادگار۔ ازبکوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی قدیم تہذیب اور کلچر کو ابھی تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ شہروں میں قائم عظیم الشان میوزیم جہاں ماضی کی شان و شوکت کی یاد دلاتے ہیں، وہاں نئی نسل اور دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو اس خطے کی تاریخ سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں تمام تاریخی مقامات کی ازسر نو تذئین وآرائش کی گئی۔ سیاحوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاحوں کو ازبکستان لایا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ نو ماہ میں 224,000 غیر ملکیوں نے ازبکستان کی سیاحت کی۔ اگلے چند برسوں میں پچیس لاکھ کے لگ بھگ سیاحوں کو ازبکستان کی سیر کرانے کا منصوبہ تیار ہے۔ اس غرض سے نئے ہوٹل، ٹور آپریٹرز، گائیڈز اور سیاحت کو منظم کرنے والی کمپنیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں، تو سرکاری ادارے سیاحوں کو تنگ نہیں کرتے۔ زیادہ سوال جواب نہیں کیے جاتے۔اگرچہ یہ کوئی معروف معنوں میں جمہوری ملک نہیں لیکن کیمونزم کے زمانے کی پابندیاں کب کی تمام ہوچکی ہیں۔ معاشرہ مغربی طرزِزندگی اور ازبک کلچر کے درمیان میں جھولتا نظر آتا ہے۔ شہریوں میں مغربی تہذیب کے لچھن اپنانے کی طرف بہت رغبت پائی جاتی ہے۔

 ثمرقند کشادہ اور بلند و بالا عمارتوں سے مزین تاریخی واقعات کا امین شہر ہے۔ (MindStormPhoto Blog and Gallery)

تاشقند، سمرقند اور بخارا میں دور دیسوں سے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ بعض لوگ مذہبی مقامات خاص طور پر امام البخاری کے مزار یا حضرت عثمان بن عفان کی شہادت کے وقت زیرِ مطالعہ قرآن مجید کی زیارت کو آتے ہیں۔ بہت سارے امیرتیمور جو مغل سلطنت کے بانی تھے، کی قبر پر حاضری دیتے ہیں اور اس خطے کی تاریخ کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ تاشقند میں امیر تیمور کی حیات اور خدمات کے حوالے سے ایک شاندار میوزیم قائم ہے۔ اس میوزیم کو دنیا کے کئی ایک سربراہ بھی دیکھ چکے ہیں۔ یہ میوزیم ازبکستان کے حکمرانوں کی فتوحات کی کہانی سناتا ہے۔
تعلیم پر زبردست توجہ دی جاتی ہے۔ بنیادی تعلیم لازمی ہے۔ لگ بھگ سو فی صد کے قریب آبادی خواندہ ہے۔ حتیٰ کہ دوردراز کے علاقوں میں بھی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ سوویت یونین کے زمانے سے ہی بنیادی تعلیم پر زور دیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد تعلیم ازبک زبان میں دی جاتی ہے۔ انگریزی کا چلن بھی عام ہے۔ روسی زبان سیکھنے اور سکھانے والے روز بہ روز کم ہورہے ہیں۔ یہ تعلیم ہی کا کمال ہے کہ عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں فعال کردار اداکرتی نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ بازاروں میں بلاخوف و خطر کار و بار کرتی ہیں۔
تاشقند میں جگہ جگہ امیرتیمور کے مجسمے آویزاں نظر آتے ہیں لیکن کئی بھی لینن اور کارل مارکس کا مجسمہ دیکھنے کو نہ ملا۔ امام بخاری کے مزار پر گائیڈ نے بتایا کہ 1924ء میں سوویت یونین نے ازبکستان پر قبضہ کیا، تو امام بخاری کا مزار بند کر دیاگیا۔ اگرچہ کچھ عرصہ بعد اسے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا لیکن نماز کی اجازت نہ تھی۔ 1991ء میں ازبکستان نے خودمختاری کا اعلان کیا، تو مسلمانوں کو مذہبی آزادیاں ملنا شروع ہوئیں۔ قدیم مساجد اور مدارس کی بحالی اور تذئین وآرائش کا کام شروع کیا گیا۔ نئی مساجد بھی تعمیر کی گئیں۔ بتایا گیا کہ عمومی طور پر مساجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن جمعہ اور رمضان المبارک میں مساجد میں خوب رونق لگ جاتی ہے۔

تاشقند میں جگہ جگہ امیرتیمور کے مجسمے آویزاں نظر آتے ہیں. (Photo: Advantour)

عام لوگوں سے کمیونزم کے زمانے کے بارے میں سوال کرتا، تو وہ ٹال دیتے۔ لوگ کھل کر اس موضوع پر بات نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو سوویت یونین یا لینن ازم کے ساتھ شناخت نہیں کرتے بلکہ اسلام اور امیر تیمور کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ازبکستان کے بانی صدر اسلام کریموف نے قریب ستائیس برس تک ملک پر حکومت کی۔ وہ ایک سخت گیر حکمران تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد ملک کے اندر شہری آزادیاں اور اظہار رائے پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی دیکھنے میں آئی۔ اکثر لوگ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے خوش نظر آتے ہیں، کیونکہ موجودہ صدر شفقت مرزا نے کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرکے معاشی صورتحال کو بہتر کیا۔ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر تو کر ہی رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ چین اور دوسرے ممالک سے بھی سرمایاکاری کے معاہدے کر رہے ہیں تاکہ ملک کو مزید ترقی دی جاسکے۔ چین پاکستان کی طرح ازبکستان میں بھی وسیع پیمانے پر سرمایا کاری کرنے جارہاہے۔ تاشقند اور سمرقند میں عام لوگ چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے کردار سے بظاہر خوش نظر آتے ہیں۔

تاشقند اور سمرقند میں عام لوگ چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے کردار سے بظاہر خوش نظر آتے ہیں۔ (Photo: Advantour)

پاکستان کے حوالے سے بھی عمومی طور پر گرمجوشی نظر آئی۔ یہاں ون بلٹ ون روڑ کے آئیڈیا کو دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں شراکت دار بننے اور اس منصوبے کے ثمرات سے مستفید ہونے کے حوالے سے بھی کافی گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ پر بھی ازبکستان کے شہری خوش نظر آتے ہیں۔ وہ حیرت کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستانی قوم نے اس عفریت کو شکست فاش سے دوچار کیا۔
اکثر لوگ پاکستانیوں کو دیکھتے ہی پہنچان جاتے ہیں اور بلند آواز میں اسلام علیکم کہتے ہیں۔ پاکستان کے حالات بارے استفسار کرتے ہیں۔ نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس وقت لاہور اور تاشقند کے درمیان فضائی رابطہ قائم ہے۔ ویزے کی پابندیاں نرم ہوچکی ہیں اور مزید بھی نرم ہو رہی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ دونوں برادر ملکوں کے تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا ہوگی اور وہ ایک دوسرے کے تجربات اور وسائل سے مستفید ہوں گے۔

……………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔