’’زمانہ کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے نا واقف ہیں، تو میرے افسانے پڑھیے، اگر آپ ان کو برداشت نہیں کرسکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے…… مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں، میری تحریر میں کوئی نقص نہیں،جس نقص کو میرے نام منسوب کیا جاتا ہے، وہ دراصل اس موجودہ نظام کا نقص ہے۔‘‘
ایک اور جگہ لکھتا ہے:’’میں تہذیب وتمدن کی اور سوسایٹی کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی…… میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے……‘‘
منٹو اردو افسانہ میں لازوال حیثیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے افسانہ کو جس بلندی تک پہنچایا، انسانی نفسیات کے جو مطالعے پیش کیے، معاشرے کی ننگی برائیوں کو جس قدر عمدگی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنا کر افسانوی سلیقہ میں پیش کیا، اس کا سلسلہ ان سے پہلے نہیں ملتا۔ اور بعد کے افسانہ نگاربھی فن کی ان بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ سب سے بڑھ کر منٹو کی تحریر میں معاشرہ کی نبض پر گرفت نمایاں ہے۔
منٹو نے معاشرہ کی نبضیں بڑی مہارت سے ٹٹولی تھیں۔اس لیے ان کی تحریروں میں اپنے دور کے لوگوں میں پائی جانے والی بیماریوں کا ذکر بھی ہے اور آیندہ نسلوں میں اس کے جراثیم منتقل ہونے کاخطرہ بھی۔ ہمارے اس دور میں زخموں سے چور قوم کے لیے دوسرے لوگ ہم دردی کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن غم اور درد کی اصل شدت کا احساس تو اس کو ہوتا ہے جسے خود زخم لگا ہو۔
منٹو کہتا ہے: ’’انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جو اپنے زخموں سے درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان انسانون کی ہے جو دوسروں کے زخم دیکھ کر درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ درد اور اس کی تہ کی جلن کو وہ انسان صحیح طور پر محسوس کرسکتا ہے جن کو زخم لگے ہوتے ہیں۔فلموں میں اصل کی اچھی نقل وہی اتار سکتا ہے جسے اصل کی واقفیت ہو۔ ناکام محبت میں دل کیسے ٹوٹتا ہے، یہ ناکام محبت ہی اچھی طرح بتا سکتا ہے۔ وہ خاتون جو پانچ وقت جائے نماز بچھا کر نماز پرھتی ہے اور عشق ومحبت کو گناہِ عظیم تصور کرتی ہے، کیمرے کے سامنے کسی مرد سے اظہارِ محبت کیا خاک کرے گی؟‘‘

’’میں تہذیب و تمدن اور سوسایٹی کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی اور نہ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ یہ کام میرا نہیں، درزیوں کا ہے۔‘‘ (ُPhoto: Chughtai’s Art Blog – Chughtai Museum)

منٹو نے غربت میں زندگی گزاری اور فقر و فاقہ کے درد سہے۔ اس نے محتاجی اور کس مہ پرسی کے نتایج کا نقشہ بہت خوب صورتی سے کھینچا ہے۔ جس کے خطوط ہمارے معاشرہ کے سینے پر ابھرے ہوئے اور نمایاں نظر آتے ہیں۔ مادیت کی دنیا میں ہر انسان دوسرے کو خوش حالی یا بد حالی کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اپنے افسانہ ’’ہتک‘‘میں منٹو نے غریب مزدور کو عشق کے خارزار میں داخل نہ ہونے کا سندیسہ دیا ہے۔ محتاج اور مفلس کی محبت بڑے امیر لوگوں کے لیے ہتک اور گالی سے کم نہی ہوتی!
ہمارے معاشرہ میں رشوت کا ناسور اوپر سے نیچے تک سرایت کرچکا ہے۔ منٹو نے اپنے افسانہ ’’رشوت‘‘ میں کسی قدر طنز ومزاح کے ساتھ رشوت خوروں پر چوٹ لگائی ہے:’’احمد دین جب ہر طرف سے مایوس ہوگیا، تو اس نے ایک خط مالک کاینات کے نام مع تیس روپے کے پوسٹ کردیا جس میں نوکری دلانے کی درخواست کی گئی تھی۔ چند دن بعد احمد دین کو ایک لیٹر ملا جس میں ’’کاینات اخبار‘‘ کے مالک نے اسے سو روپے ماہوار پر ملازمت کے لیے بلایا تھا۔‘‘ منٹو کے اس افسانہ میں احمد دین نے کس قدر معصومیت سے خالق کاینات پر رشوت خوری کاالزم لگایا ہے۔
1947ء میں جب متحدہ ہندوستان کے سینہ پر بٹوارے کی لکیریں ابھریں، تو علاقوں کے بندر بانٹ میں بعض خاندان اور رشتہ داریاں بھی آپس میں معروضی طور پر منقسم ہوگئیں۔ ایک خاندان کا آدھا دھڑ بھارت میں رہ گیا، تو آدھا پاکستان میں۔ منٹو نے اپنے مضامین میں اس دور کے واقعات کو جگہ دے کر اس حقیقت کو بھی آشکارا کیا ہے کہ ہمارے یہ عارضہ بٹوارے ہمیشہ کے لیے دلوں کے سمبندھ کو نہ توڑ سکے۔ پاکستان بننے کے بعد اور تو اور، جیلوں میں بند قیدی اور پاگل افراد بھی بٹوارے کی دھار پر کٹ گئے۔ ان میں سے جب کسی کو ہندوستان بھیجا جاتا، تو وہ ہندوستان کو دور دراز کا کوئی خطہ سمجھ کر جانے سے انکار کرتا۔
ہمارے معاشرہ میں جتنی برائیاں پائی جاتی ہیں ،منٹو نے ان سب کا احاطہ اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ جرایم کی ہیئت اور انداز تو بدل گئے ہیں لیکن اس کے اصل اسباب اور عوامل جو اس دور میں تھے، آج بھی وہی اسباب جرایم کے پیچھے کار فرما ہیں۔ اس لیے منٹو نے بہ جا طور پر کہا ہے کہ:’’میں تہذیب و تمدن اور سوسایٹی کی چولی کیا اتاروں گا، جو ہے ہی ننگی اور نہ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ یہ کام میرا نہیں، درزیوں کا ہے۔‘‘