آج سے ایک برس پہلے اعزاز علی نے NUST اسلام آباد سے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ جون 2017ء میں جاری ہونے والی رینکنگ کے مطابق ’’نسٹ‘‘ دنیا کی بہترین یونیورسیٹیوں میں 437 ویں نمبر پر ہے، جو کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کے لئے قابل فخر بات ہے۔ انہی نامور اداروں کے بھروسے والدین اپنے بچوں کا داخلہ کرواتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی ان کے بچے کو ایک اچھی نوکری مل جائے گی۔
اعزاز علی نامی طالب علم ڈگری حاصل کرنے کے بعد سات ماہ یوں ہی نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ درجن بھر انٹرویو زمیں جوتیاں گھسانے کے بعد اسے ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کنٹریکٹر کی نوکری ملی ۔ اس کی ماہانہ اجرت 20 ہزار تھی۔ وہ روز تپتی دوپہر میں تعمیراتی کام کی جگہ پر جاتا اور کام کرتا۔ مگر جسمانی مشقت اور کم تنخواہ سے تنگ آکر اس نے یہ نوکری چھوڑ دی۔ اس کے بعد اس نے Atlas Honda نامی ایک نجی کمپنی میں انٹرویو دیا۔ وہ بہت پُرامید تھا مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اس نے تھک ہار کر دو ماہ قبل سی ایس ایس کرنے کی ٹھان لی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے ہاں تین قسم کے لوگ سی ایس ایس کا امتحان دیتے ہیں۔ وہ طلبہ جنہیں بیوروکریٹ بننے کا شوق ہوتا ہے۔ دوسرے وہ جنہیں ان کے والدین اپنی ذاتی خواہش کی بنا پر زبردستی مقابلے کے امتحان میں بٹھادیتے ہیں۔اور تیسرے وہ نوجوان جنہیں اپنے شعبے میں کوئی نوکری نہیں ملتی، تو ان کے پاس آخری راستہ مقابلے کے امتحان کی صورت میں رہ جاتا ہے۔ اعزاز علی تیسری کٹیگری میں شامل تھا۔

ہمارے ہاں کتنی درسگاہیں ایسی ہیں جہاں سکول سے لے کر کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک پریشر برداشت کرنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے؟ (photo: Globe Gazette)

اعزاز راولپنڈی کی جس سی ایس ایس اکیڈمی میں امتحان کی تیاری کر رہا تھا، وہاں میری ہی یونیورسٹی کے سینئر حسن علی گوندل انٹرنیشنل ریلیشنز پڑھاتے ہیں۔ میں نے ان سے اعزاز کے بارے میں دریافت کیا، تو کہنے لگے: ’’خود کشی سے ایک ہفتہ قبل اعزاز نے میری ’’آئی آر‘‘ کی کلاس لی تھی۔ تب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔ میں نے کلاس میں اسے ہمیشہ مسکراتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ اس کی مسکراہٹ کافی عجیب سی ہوتی تھی۔ اس کی آنکھوں پر مَیں نے جب بھی غور کیا، مجھے یوں لگا کہ شاید وہ کسی گہرے دکھ میں مبتلا ہے۔ وہ لیکچر کے دوران میں کسی طور بھی سوال و جواب یا بحث کی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ ایسا بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی کے عشق میں مبتلا ہے۔ مگر ہاں، مجھے اتنا یاد ہے جب پہلے دن کلاس میں سب کا تعارف ہوا، تو اعزاز نے مجھے کہا تھا کہ سر! میں جاب لیس ہوں۔‘‘
طالب علم کی خودکشی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگ اعزاز کی سماجی اور معاشی زندگی کا جائزہ لیتے اور یہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ کیا عوامل تھے جس کی بنا پر ایک میکینکل انجینئر کو اپنی زندگی کا چراغ گل کرنا پڑا؟
اعزاز کے دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد پاکستانی اسے یہ سمجھا رہے تھے کہ خودکشی ہمارے دین اسلام میں حرام ہے۔ تمہیں خودکشی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر نوکری نہیں مل رہی تھی، تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے تھا وعلیٰ ہذا القیاس۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ساری باتیں بجا مگر ہمارے ہاں کتنی درسگاہیں ایسی ہیں جہاں سکول سے لے کر کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک پریشر برداشت کرنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے؟ مَیں چونکہ خود ایک انجینئر ہوں اور ان تمام مراحل سے گزرنے کا ذاتی تجربہ رکھتا ہوں، اس لئے میں اعزاز کا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔ جب ایک انجینئر آخری سمسٹر میں قدم رکھتا ہی ہے، تو اس کے گھر والے اس سے نئی نئی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ ڈگری مکمل ہونے سے پہلے ہی والدین پوچھتے ہیں، بیٹا! تجھے جاب تو مل جائے گی ناں؟ وہ تو پھر اعزاز تھا جو صرف سال بھر بے روزگار پھرتا رہا۔ پاکستان میں اکثر انجینئرزکو ڈگری ملنے کے کئی سال بعد بھی نوکری نہیں ملتی، اور اگر ملتی بھی ہے، تو پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہوار والی نوکری، جتنی کہ آج کل پاکستان میں کسی بھی دکان پر معمور ہمارے سیکورٹی گارڈ بھائیوں کی تنخواہ ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس کے گھر والوں نے اپنے بچے کو لاکھوں روپے لگا کر انجینئرنگ کی ڈگری کروائی ہو اور نتیجہ صفر ہو، تو ایسے میں ایک پڑھے لکھے شخص کے ذہن پر کیا گزرتی ہوگی اور وہ خود کو کس قدر احساس کمتری کا شکار سمجھتا ہوگا؟ میرے بہت سارے جونیئرز ایسے ہیں جنہیں پاکستان میں انجینئرنگ کی جاب نہیں ملی، تو بیرون ملک ماسٹرز کرنا ان کی آخری آپشن ٹھہری۔ واپس آکر وہ کسی سرکاری یا نیم سرکاری یونیورسٹی میں زیادہ سے زیادہ لیکچرار لگ جائیں گے، اور پھرباہر سے ماسٹر زڈگری یافتہ شخص کو پاکستانی یونیورسٹیاں بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گی۔ یوں شعبۂ انجینئرنگ کا اصل مقصدہی فوت ہو جاتا ہے۔
اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوکری نہ ملنے میں کسی طور بھی یونیورسٹی قصور وار نہیں ہے۔قصوروار تو یہ سسٹم ہے جسے ’’سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ کا قاعدہ تک معلوم نہیں۔ ملکی پالیسی بنانے والے وہ ادارے ہیں جو آج تک یہ نہیں بتا پائے کہ ہمیں کس شعبے میں کتنے انجینئرز درکار ہیں؟ ہم سبزیاں، پھل، دالیں تو اپنی ضرورت کے مطابق پیدا کرتے اور دوسرے ممالک سے درآمدکرتے ہیں، مگر ہمارے لئے انجینئرنگ کی ڈگری آلو ٹماٹر سے بھی ادنیٰ ہے، جسے ہماری یونیورسٹیاں تھوک کے حساب سے پیدا کرتی جا رہی ہیں اور ان کا استعمال کسی بھی کارخانے میں نہیں ہے۔ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں خودکشی کرنے کے لئے کسی ’’بلو وہیل‘‘ گیم کی ضرورت نہیں ہے۔بس ایک انجینئرنگ کی ڈگری اور بے روزگاری چاہئے۔

اچھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوکری نہ ملنے میں کسی طور بھی یونیورسٹی قصور وار نہیں ہے۔قصوروار تو یہ سسٹم ہے جسے ’’سپلائی اینڈ ڈیمانڈ‘‘ کا قاعدہ تک معلوم نہیں۔ (Photo: Business 2 Community)

اکثر رونما ہونے والے بعض واقعات بہت سے چہرے، ادارے اور قومی رویے بے نقاب کر جاتے ہیں۔ اعزاز علی کی خودکشی بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے، جس نے جہاں ریاست کے ایک ستون کو بے نقاب کیا، تو وہی قومی بے حسی کو بھی بے پردہ کر کے رکھ دیا ہے۔
اعزاز کی خودکشی کے اندوہناک واقعے کو ایک ماہ گزرنے کو ہے۔ ہمارے معاشرے کے چوتھے ستون ’’میڈیا‘‘ کو پانامہ، عمران خان، میاں صاحب، عسکری اور سیاسی کشمکش، شرمین عبید اور اس کی بہن کے فرینڈ ریکوسٹ والے معاملات سے نکلنے سے فرصت ہی نہیں کہ وہ آنے والی نسل کا اپنے ہی ہاتھوں ہوتا ہوا خون دیکھ کر بھی چپ ہے۔شایداس لئے کہ ایک 23 برس کے انجینئر کی موت ان کا ٹاک شو نہیں بیچ سکتی۔ لکھنے والے بھی اس موضوع سے احتراز برتتے ہیں۔ کوئی ایک بڑا کالم نگار بھی اب تک اعزاز کی موت کے المیے کو بیان نہیں کر پایا۔ شاید اس لئے کہ بڑے کالم نگاروں کے لئے یہ موضوع بڑا نہیں تھا یا ان کے قلم کے شایانِ شان نہیں تھا۔ مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ طالب علم کی خودکُشی کو لے کر ایک ہی ٹکر، ایک ہی خبر بار بارچلا کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا، مگر اس واقعہ کے وقوع ہونے کے پیچھے عوامل اور آئندہ ایسی خودکشیوں سے بچنے کی ایک سنجیدہ مہم جوئی تو ممکن ہی تھی۔ خیر، جب لکھنے والوں کے قلم خاموش دیکھے اور انتظار کی عمر تمام ہوئی، تو سوچا کہ یہ جو کاندھوں پر کالے رنگ کا گاؤن اوڑھے، سر پر کالی ٹوپیاں پہنے، ہاتھ میں ڈگریاں تھامے، فضا میں گریجویٹ کیپ اچھالتے، آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب سجائے، بائیس سالہ نو عمر چہرے، خود کو یوں محسوس کر رہے ہیں جیسے ایک سنگ میل عبور کر کے آئے ہیں (جو کہ یقینا کرکے آئے ہیں) انہیں یہ بتا دوں کہ یہی خواب، یہی خوشی آج سے ٹھیک ایک برس پہلے اعزاز علی کی آنکھوں میں بھی موجود تھی،مگر حالات کے مارے خود کو مارنے والے طالب علم کو یہ کہاں معلوم تھا کہ یہ معاشرہ اس کی موت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھے گا۔ خیر، مایوس مت ہوں! سب اچھا ہے مگر صرف کسی اگلی خودکُشی کی افسوسناک خبر آنے تک۔

………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔