ضلع گوادر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا حصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پا کستان کے سابق وزیر اعظم سر فیروز خان نے انیس سو ستاون میں حکومتِ عمان سے دس لاکھ پونڈ میں خریدا تھا۔ یہ کراچی کے مغرب میں کوئی 450 کلو میٹر، پاکستان ایران سرحد سے 70, 80 کلومیٹر اور بحیرۂ عرب کے اُس پار سلطنتِ عمان سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر ایک ایسی بندرگاہ ہے، جس کا پانی گرم بھی ہے اور گہرا بھی۔ اسی وجہ سے یہ پورا سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کے لئے دستیاب رہتا ہے۔ اُس چین کے لئے جہاں دُنیا کی قریباً ایک چوتھائی حصہ آباد ہے اور جس سے خیبر پختون خوا کے گدھوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، کے لئے اس کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ اُن کے پاس گرم پانی کی بندرگاہ نہیں ہے۔ ہمارے پالیسی سازکہتے ہیں کہ اس بندرگاہ تک رسائی آسان بنانے اور دیگر کئی منصوبوں کی تکمیل کے بعد وسیع پیمانے پر تجارت شروع ہو جائے گی، تو کاروبار اور روزگار کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں کافی مضبوط ہو جائے گی۔ کیونکہ یہاں پر تمام ممالک کی کرنسی میں لین دین ہوگا، تو ظاہر ہے ڈالر پر انحصار بھی کم ہوگا۔ یہ راستہ مستقبل میں پوری دنیا کی تجارت کا رُخ ہماری طرف موڑ لے گا اور دیگر راستے آہستہ آہستہ متروک ہو جائیں گے۔ نوٹ کیا جائے کہ ہم نجومی تو نہیں لیکن دعویٰ بہت بڑا کرنے والے ہیں کہ گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ ریجن پوری دُنیا کی تہذیب و ثقافت و تجارت کی کنجی بننے والا ہے۔ جی ہاں ’’کنجی۔‘‘ جو دنیا کی تجارت کے سمندر کو اپنے بہاؤ میں سمو کر اس ریجن کو تہذیب و ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنا ڈالے گا۔ تہذیب اور تجارت کی یہ ’’کنجی‘‘ جس کے ہاتھ میں ہوگی، وہ اس دنیا پر حکم رانی کرے گا۔

گوادر کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم سر فیروز خان نے انیس سو ستاون میں حکومتِ عمان سے دس لاکھ پونڈ میں خریدا تھا۔

پا کستان میں اس کو ’’گیم چینجر‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ بات ہے لمبی، جس پر بات کریں گے تو بات ہمارے سفر نامے سے نکل کر ابنِ بطوطہ کے سفر نامے میں تاریخ کے اوراق کھنگالنے تک پہنچے گی۔ فی الحال اُن تاریخی باتوں کو، جو کہ اسی طرح کے موضوع کے بارے میں ہیں، طاقِ نسیاں میں رہنے دیں۔ دلچسپی رکھنے والے ابنِ بطوطہ کے سفر نامے کے تعارفی باب پڑھیں اور سر دُھنیں۔ اتنا ضرور کہیں گے کہ مستقبل کی بہترین منصوبہ بندی تب ممکن ہے، جب آپ اپنی تاریخ سے واقف ہو۔ یہ قول ہمارا نہیں، امریکی صدر روز ویلٹ کا ہے۔ ہمارے اقوال اگر روز ویلٹ وغیرہ سے اچھے بھی ہوں، تو اُن پر کون سر کھپاتا ہے! مغربی دنیا اسی وجہ سے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے کہ اُن کو اس حوالے سے یعنی راستوں کے حوالے سے اپنی تاریخ کا بھی پتا ہے اور گئے وقتوں میں اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ادراک بھی ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان اب تک رُل رہے ہیں۔ اسرائیل، انڈیا اور امریکہ کے علاوہ دیگر کئی ممالک کو بجا طور پر یہ خدشہ؍ خارش ہے اور ڈر بھی ہے کہ یہ بندرگاہ نہ صرف تجارت کے لئے بلکہ چین اپنی بحریہ کی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرے گا۔ امریکیوں کے پیٹ میں تو بڑا مروڑ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’سی پیک متنازعہ علاقوں میں سے گزرتا ہے اور ون بلٹ ون روڈ کا نظریہ تو دنیا کو ایک قسم کے حکم یا ہدایت کی تابع کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ گلوبل دنیا میں اس قسم کی تھیوری اصولی طور پر ناقابلِ عمل ہے۔ کیوں کہ یہاں ایک نہیں بہت سے بِلٹس اور ایک نہیں بہت ساری سڑکیں ہیں۔ ماسوائے بڑے بھائی جان کے، پاکستان کی مخلوقِ خدا اس منصوبے سے شاکی ہے، وہ کہتی ہے کہ گوادر پورٹ کے منصوبوں میں جھوٹ اور دغا بازی سے کام لیا جا رہا ہے، راستوں بارے بھی اور منصوبوں بارے بھی۔ اہم فیصلوں کے سلسلے میں چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ اس کی بہت ساری جزیات پوشیدہ رکھی جاتی ہیں۔ چند ہی لوگ فیصلے کرتے ہیں اور اُس کو نافذ کرتے ہیں۔ جو میٹنگز وغیرہ ہوتی ہیں وہ ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے کے اور، اوردکھانے کے اور ہیں۔ بلوچستان اور پختون خوا کے لئے کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ موجود ہے نہ کوئی زیرِغور ہے، جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو، امن و استحکام کو فروغ حاصل ہو، سماجی و معاشی ترقی ہو اور لوگوں کی زندگی کا معیار بلند ہو۔

حال ہی میں پختون خوا اولسی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سید عالم مسعود نے کہا ہے کہ سی پیک کے بنیادی نقشے کو تبدیل کرنے سے پختون خوا، گلگت بلتستان، بلوچستان اور درونِ سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جس سے طبقاتی جنگ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سی پیک کے اکثر منصوبے پنجاب گروپ کو بغیر ٹینڈرز کے دیئے گئے ہیں۔ جب کہ ریلوے، انڈسٹریل پارکس اور بجلی کے منصوبوں سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوگا ۔ دوسری طرف لاہور میں ترقی کا جو سونامی آیا ہے، وہ سب ان منصوبوں کی بدولت ہے۔ شمالی و جنوبی پنجاب کے دیہی علاقے بھی ترقی کی دوڑ کے اس کھیل کے تماشائی تو ہیں، لیکن اس میں شراکت دار نہیں۔گوادر میں عام لوگوں کے لئے کوئی سہولت نہیں۔ یہاں صاف پانی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کی طرف حکومتی دھیان نہیں، ’’دَ ڈیوے لاندی مکمل تیارہ دہ۔‘‘یعنی چراغ تلے مکمل اندھیرا ہے۔

ڈاکٹر سید عالم مسعود نے کہا ہے کہ سی پیک کے بنیادی نقشے کو تبدیل کرنے سے پختون خوا، گلگت بلتستان، بلوچستان اور درونِ سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جس سے طبقاتی جنگ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔

لوگوں کا ’’کنسرن‘‘ یہ بھی ہے کہ پاکستان، گوادر پورٹ چائینہ کو مفت میں دے، فروخت کرے یا تحفہ میں دے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ البتہ جو ہائی ویز اور موٹر ویز بن رہی ہیں، وہ چین ہی استعمال کرے گا۔ فوائد بھی وہ اُٹھائے گا۔ اس لئے ان کاموں کے لئے ہمیں قرضے دے نہ پیسے دے، خود ہی کام کرے اور خود ہی استعمال کرے۔ ہمارا کیا ہے، موٹر ویز پر اپنی سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اوررکشے دوڑائیں گے کیا؟ ہمیں اُن سڑکوں پر سائیکل دوڑانے اور بغیر ویزے کے چین تک جانے کی اجازت مل جائے گی کیا؟

’’بلورستان‘‘ یا ’’بالورستان‘‘ گلگت بلتستان کا تاریخی نام ہے۔ یہ نام چائینہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ آٹھویں صدی میں استعمال ہوا۔ یہاں کی نیشنلسٹ پارٹیاں اور عرب تاریخ دان اس کو ’’بلور‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ اس ریجن میں بلتستان کے علاوہ لداخ (کارگل اور بعض اوقات چترال بھی) بلورستان کے علاقوں میں شامل تصور کیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہاں کے لوگوں کو ’’بلاورز‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کا مطلب ہے، بالا علاقے یا اونچے علاقے۔

’بلورستان‘‘ یا ’’بالورستان‘‘ گلگت بلتستان کا تاریخی نام ہے۔ یہ نام چائینہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ آٹھویں صدی میں استعمال ہوا۔

ایک اور داستان یہ ہے کہ یہاں پر ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا نام ’’بلور شاہ‘‘ تھا۔ اس نے اس ریجن کو متحد رکھنے کے لئے اپنی توانایاں صرف کیں۔’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹارک اینڈ کلچرل ریسرچ آف پاکستان‘‘ کے مطابق یہ نام شائد بدھ مت کے پٹولا کے شاہی خاندان سے متعلق ہے، جو آٹھویں صدی سے یہاں بہت مستحکم اور مضبوط رہا ہے۔ تین صدیوں کا سورج دیکھنے والی گلگت بلتستان کی معمر خاتون سیدہ مرزا بیگم الحسینی، جس کی تاریخِ پیدائس اٹھارہ سو چھیاسی بتائی جا رہی تھی، یہ سطور لکھتے وقت ( 24 ستمبر 2017ء) وفات پاگئی۔ آپ نے راجاؤں، انگریزوں، سکھوں، حکومتِ گلگت اور حکومتِ پاکستان کے زمانے دیکھے۔ لوگ اُن کو ’’دادی بلورستانی یا دادی بالاورستانی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ہم اپنی یہ حقیر سی کوشش گلگت بلتستان کی اس دادی کے نام کرتے ہوئے بے تحاشا خوشی و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس سفر نامے کو ’’یہ دیس ہے دادی بلورستانی کا‘‘ کے نام سے منسوب کیا۔ زندگی رہے گی تو سفر چلتا رہے گا۔ جاتے جاتے انشا’ کی سدا بہار غزل کے دلوں کو چیرنے والے چند اشعار لکھنے کو دل کرتا ہے، آپ بھی جاتے جاتے پڑھتے جائیں۔
ہو نہ دنیا میں کوئی ہم سا بھی پیا سا لوگو
جی میں آتی ہے کہ پی جائیں یہ دریا لوگو
ہونگے اس شہر میں کچھ اسکے بھی پڑھنے والے
یوں تو یہ شخص بھی مشہور تھا خاصا لوگو
اب کوئی آئے تو کہنا ’’کہ مسافر تو گیا‘‘
یہ بھی کہنا کہ ’’بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو‘‘
حرفِ آخر:۔ قارئین، خدانخواستہ کسی بھی لفظ، فقرے یا بات سے کسی دوست کو دکھ پہنچا ہو، یہ اُن سے زیادہ میرے لئے دکھ کی بات ہوگی۔ اُن سے دلی معذرت چاہتا ہوں۔ اُن قارئین سے معافی کا خواستگارہوں، جن کو کوئی بات بری لگی ہو، بھاری لگی ہو یا اُس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ہو۔ انسان، ہے تو انسان ہی جس سے کسی بھی غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ غلطیاں تو اس میں بہت ہوں گی لیکن وہ دانستہ نہیں ہوں گی جن پر معافی کا خواستگار ہوں۔ نواز خان ڈرائیور اور سردار جونیئر نے اس سفر کی مشکلوں میں سب دوستوں کو آسانیاں اور راحتیں فراہم کیں۔ ان دونوں کاصدقِ دل سے شکریہ اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو زندگی کی خوشیاں نصیب فرمائے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ بعض قارئین بڑے شوق سے میری تحریریں پڑھتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں، خامیوں اور غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ہم اُن کے بے حدممنون ہیں، فی امان اللہ۔

………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔