روشن خیالی کو کئی اصطلاحات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں یہ نعرہ اکثر آمروں کے ادوارِ اقتدا میں بلند کیا گیا۔ ایوب خان کے دورِ اقتدار کے پہلے حصے میں زبردستی کی روشن خیالی کی جھلک نظر آتی ہے۔ ضیاءالحق واحد آمر تھے جنہوں نے اسلامی نظریۂ قوانین پر زور دیا اور وہ ایک تنگ نظر شخصیت کہلائے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کا دورِ حکومت بھی روشن خیالی کا مداح پایا گیا۔ چوں کہ یہ تمام لوگ جبراً اقتدار پر قابض ہوتے تھے اور خود کو کبھی بھی عوام کا جوابدہ نہیں سمجھتے تھے، اس لئے ان کو روشن خیالی کی تبلیغ سے باقی نام نہاد جمہوری حکومتوں کی نسبت کم ڈر لگتا تھا۔ کیونکہ تاریخ میں روشن خیالی کو اقتدار کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روشن خیالی ہے کیا چیز؟ روشن خیالی ایک تحریک کا نام ہے جو نئی تہاذیب کو جنم دیتی ہے۔ پاکستانی نظریۂ روشن خیالی کے برعکس، روشن خیالی میرے مطابق وہ نئے خیالات یا سوچ ہے، جو معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشان دہی کرنے کے بعد اس کا حل تجویز کریں۔

روشن خیالی ہے کیا چیز؟ روشن خیالی ایک تحریک کا نام ہے جو نئی تہاذیب کو جنم دیتی ہے۔

ہم اگر تاریخ کو بہ غور دیکھیں، تو روشن خیالی نے انسانی معاشرے میں سخت مخالفت اور تشدد کے بعد ہی اپنی جگہ بنائی ہے جس کو آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تنگ نظری کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر روشن خیال تھے، جنہوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم سے روشنی پھیلائی اور اپنے معاشروں کو تاریکی سے نکال کر ان میں نئی تہاذیب کی بنیاد رکھی۔ ہر پیغمبر کے دور میں اس نئی سوچ کو کچلنے کی سازشیں کی گئیں جن کے واقعات قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر درج ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ روشن خیالی آتی کہاں سے ہے اور اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ تو عرض ہے کہ روشن خیالی علم سے آتی ہے، کیونکہ ہر نئے خیال یا سوچ کی تخلیق کی بنیاد علم پر ہوتی ہے۔ تاریخ انسانی میں پڑھنے اور علم حاصل کرنے کے ذرائع عام انسانوں کیلئے عموماً میسر نہیں ہوتے تھے۔ اکثر لوگ کھیتی باڑی پر گزر بسر کرتے تھے اور اس پیشے کا سارا دار و مدار قدرت کے کارخانے پر تھا، جس میں انسان کا کام بیج بو کر بارش کیلئے دعا کرنا ہوتا تھا۔ علم صرف محلات کی لونڈیوں کی طرح شہزادوں کو مستفید کرتا تھا، تاکہ وہ رعایا کو غلام بنا کر رکھ سکیں۔ اُن دنوں روشن خیالوں کو بھاری قیمتیں ادا کرنی پڑیں۔ سقراط کو اس وجہ سے سزائے موت دی گئی، کیونکہ اس وقت کے حکمرانوں کا خیال تھا کہ یہ شخص نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے ۔اسی طرح یورپ کی روشن خیالی کے گن گانے والوں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ اس خطۂ ارض پر کتاب چھاپنے کی سزا موت تھی۔ چونکہ پہلے علم زیادہ تر زبان وکلام کے ذریعے فرد سے فرد تک منتقل ہوتا تھا اور کتاب کا رواج عام نہیں تھا،جس کو روکنا اس وقت کے حکمرانوں کے لئے آسان تھا اور ان کے قید خانوں میں روشن خیال لوگ سڑ کر انتقال کر جاتے تھے، لیکن اپنے فلسفے کی تبلیغ نہ کر پاتے۔پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے سے دنیا میں ایک انقلاب آگیا اور علم ہر عام و خاص کیلئے عام ہونے لگا۔ حالاں کہ شروع کے زمانے میں چرچ اور بادشاہوں کی حکمرانی کے گٹھ جوڑ نے پرنٹنگ پریس کو سازش قرار دیا۔ کتاب چھاپنے پر آخری سزائے موت 1663ء میں ایک پبلشر کو دی گئی، جس نے کتاب لکھنے والے کا نام بتانے سے انکار کیا تھا۔ ایسی کتاب جس میں روشن خیال نکتہ کہ ’’حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں‘‘درج تھا۔ لیکن جب سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، تو انگلستان جو کبھی سمندری قزاقوں کے جزیرے کے نام سے مشہور تھا، نے نصف سے زائددنیا پر حکمرانی کی۔ ایک وقت تھا جب ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
مسلمانوں کا زوال، اسلام کی روشن خیالی کی مخالفت نہیں بلکہ اسلام ہی نے روشن خیالی کو متعارف کروایا ہے۔ قرآن، اللہ کا نازل کردہ علم ہے جس میں ہر جگہ سوچ بچار کا حکم دیا گیا ہے۔ زمانۂ جاہلیت کے اندھیروں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا گیا۔ لوگوں کو ان کے حقوق سے روشناس کیا گیا اور ان کی حفاظت کی گئی، معاشرتی نظام دیا گیا، جسے آج مسلمانوں کے بجائے مغربی ممالک میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوگا کہ جس میں اسلام نے حق سے زیادہ حصہ ادا نہ کیا ہو۔ انسان تو انسان، جانوروں کے حقوق بھی وضع کئے گئے، جس سے ایک نئی مؤثر اسلامی تہذیب نے جنم لیا۔ یہ روشن خیالی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ کچھ تنگ نظر سیکولر لوگوں کے مطابق اسلام کی پیروکاری کی وجہ سے مسلمان نئی سوچ کی منافی کرتا ہے، جس کی وجہ سے آج مسلمان زوال کا شکار ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نظر نہیں آتا کہ تمہیں جو صلاحیتیں دی گئی ہیں، ان کو استعمال نہ کرنے کا بھی حساب لیا جائے گا۔ جس میں سماعت ،بصارت اور عقل کی بات کی گئی ہے۔ مسلمان اور اسلام، دونوں الگ نام ہیں۔ جب مسلمان اسلام کے قریب تھا، اس وقت تین براعظموں پر حکومت کی اور اللہ کا عدل قائم کیا۔ لیکن اس کے بر عکس برصغیر کی تاریخ جس سے ہم بخوبی واقف ہیں کو دیکھیں، تو انہوں نے اسلام چھوڑ دیا تھا۔ مغرب میں جہاں نئی تہاذیب جنم لے رہی تھیں، اس زمانے میں ہمارے حکمران ’’ہیجڑوں‘‘کی فوج بھرتی کرنے میں مصروف تھے۔ پندرہ پندرہ دن مشاعرے چلتے تھے۔ نواب صاحب کے بٹیر رستم اور سہراب کی موت کے چالیس دن سوگ منائے جا رہے تھے۔ مغرب میں جہاں یونیورسٹیوں کا قیام کیا جا رہا تھا، اس وقت یہاں کے بادشاہ پالتو جانوروں کی یاد میں محل تعمیر کروا رہے تھے۔ نئی سوچ کی جگہ، نئے مذہب ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے اقتدار کو تقویت بخشنے کیلئے وجود میں آرہے تھے۔ اسلام اس وقت بھی مکمل تھا اور آج بھی مکمل دین ہے، لیکن مسلمان صرف نام کا مسلمان رہ گیا ہے۔
آج پاکستان میں ایک خاص طبقے کے لوگ جن کو روشن خیالی کی تعریف بھی معلوم نہیں، مغربی روشن خیالی کے دلدادہ ہیں اور اس کے فخریہ انداز میں حوالے بھی دیتے ہیں، لیکن مغربی تہاذیب تو ختم ہوچکیں اور آج صرف ٹیکنالوجی کے بل پر کھڑی ہیں۔ میں اسے تہذیب نہیں مانتا جہاں مرد اور عورت کی تمیز ہی ختم ہوجائے۔ مرد اور عورت بیک وقت شوہر اور بیوی قانوناً تسلیم ہوں، جہاں کسی کو اپنے والد کا پتا نہ ہو، کیوں کہ بغیر شادی کے رشتے قائم کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہ تہاذیب، حرام زادوں کی نسل پروان چھڑا رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں برہنہ ویب سائٹس امریکہ اور یورپ کے روشن خیالوں نے ہی بنائی ہوئی ہیں، نہ کہ افریقہ کے ننگے جنگلی باشندوں نے ’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں فحاشی پھیلے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے، دنیا اور آخرت میں۔‘‘النور آیت ۱۹۔
روشن خیالی مہم کے ذریعے اسلام کو ہماری معاشرت سے نکالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، طرزِ حکمرانی کو تو پہلے سے اسلام سے خارج کیا جاچکا ہے۔ پاکستان میں سودی نظام پر قائم کاروبار رائج ہے۔انصاف کا قانون بھی برطانیہ کا درآمد شدہ ہے۔ بس، پروردگار ہم پر رحم کرے۔

……………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔